برکینا فاسو: ترقی پانے والے لیفٹیننٹ کرنل نے حکومت گرا دی

برکینا فاسو کے صدر روش کابور کو معزول کرنے والی فوجی بغاوت کے رہنما پال ہینری سنداؤگو دامیبا ایک لیفٹیننٹ کرنل ہیں، جن کا عوامی پروفائل نسبتاً کم ہے اور انہیں دارالحکومت میں سکیورٹی کی نگرانی کے لیے دسمبر میں ترقی دی گئی تھی۔

24 جنوری 2022 کو ریڈیو ٹیلی ویژن ڈو برکینا سے اے ایف پی ٹی وی کے ذریعے حاصل کی گئی ایک ویڈیو سے لی گئی اس تصویر میں فوج کے ترجمان کیپٹن سڈسوری قادر اوئیڈراوگو ، جنہوں نے دیگر فوجیوں کے ساتھ اقتدار سنبھالنے اور برکینا فاسو کے صدر روش مارک کرسچن کابور کی حکومت کے خاتمے کا اعلان کیا (فوٹو: اے ایف پی/ ریڈیو ٹیلی ویژن ڈو برکینا)

افریقی ملک برکینا فاسو میں فوجی بغاوت میں حال ہی میں ترقی پانے والے ایک کرنل نے ملک میں ’ترقی اور تبدیلی کے علمدار‘ سمجھے جانے والے صدر روش مارک کرسچن کابور کا تختہ الٹ کر انہیں حراست میں لے لیا ہے۔ 

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق فوجی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ’صدر محفوظ جگہ پر ہیں،‘ لیکن یہ نہیں بتایا کہ انہیں کہاں رکھا گیا ہے۔

اس سے قبل اتوار کو دارالحکومت اوگاڈوگو میں صدارتی رہائش گاہ کے قریب گولیاں چلنے کی آوازیں سنی گئی تھیں۔ حکومت نے ان افواہوں کی تردید کی کہ ملک میں بغاوت ہوئی ہے، تاہم پھر فوج نے حکومت کا تختہ الٹنے کا اعلان کر دیا۔

بغاوت کے سربراہ کون ہیں؟

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق برکینا فاسو کے صدر روش کابور کو معزول کرنے والی فوجی بغاوت کے رہنما پال ہینری سنداؤگو دامیبا ایک لیفٹیننٹ کرنل ہیں، جن کا عوامی پروفائل نسبتاً کم ہے اور انہیں دارالحکومت میں سکیورٹی کی نگرانی کے لیے دسمبر میں ترقی دی گئی تھی۔

دسمبر میں برکینا فاسو کے تھرڈ ملٹری ریجن کے کمانڈر کے طور پر پال ہینری کی تقرری ایک ہلچل کا حصہ تھی۔ یہ ملٹری ریجن دارالحکومت اوگاڈوگو میں سکیورٹی کی ذمہ دار ہے۔

ایک فرانسیسی پبلشر کی ویب سائٹ کے مطابق وہ گذشتہ جون میں شائع ہونے والی ایک کتاب کے مصنف ہیں جس کا عنوان ہے ’مغربی افریقی فوجیں اور دہشت گردی: غیر یقینی ردعمل؟‘ہے۔

اس کتاب میں ’مغربی افریقی دہشت گردی کی خصوصیات‘ کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

کتاب کے ناشر کے مطابق پال ہینری نے پیرس میں ایک فوجی اکیڈمی سے تعلیم حاصل کی اور کرمنل سائنسز میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی۔

برکینابے میڈیا میں اس وقت کی اطلاعات کے مطابق انہوں نے 2019 میں برکینا فاسو میں 2015 میں ہونے والی بغاوت کے پیچھے سازشیوں کے مقدمے میں گواہی دی تھی، جس نے مختصر طور پر عبوری حکومت کو معزول کر دیا تھا۔

پیر کی شب جب فوج کے ترجمان نے ایک کم روشنی والے سٹوڈیو میں صدر کابور کی حکومت کا تختہ الٹنے اور آئین کی معطلی کا اعلان کیا تو فوجی وردی اور سرخ ٹوپی میں ملبوس پال ہینری سنداؤگو دامیبا ان کے ساتھ ہی بیٹھے تھے۔

معزول صدر کون ہیں؟

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک وقت تھا جب برکینا فاسو کے صدر کابور کو ملک میں تبدیلی اور ترقی کی امیدوں کے مجسم کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔

فرانس کے شہر دیجون میں ایک طالب علم کی حیثیت سے کابور ایک پرعزم بائیں بازو کے رہنما تھے اور جب برکینا کے مارکسی رہنما تھامس سنکرا نے اقتدار سنبھالا تو وہ 30 سال کے ہونے سے پہلے ہی بین الاقوامی بینک آف برکینا کے ڈائریکٹر بن گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب سنکار کو 1987 میں گولی مار دی گئی تو بلیز کمپاور نے باگ ڈور سنبھال لی۔ کابور دو سال بعد سیاست میں آئے اور ترقی کرتے کرتے خصوصی صدارتی مشیر بننے سے پہلے 1994 میں دو سال کے لیے وزیر اعظم بنے۔

انہوں نے ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک حکمران کانگریس فار ڈیموکریسی اینڈ پروگریس (سی ڈی پی) پارٹی کی قیادت کی اور انہیں کمپاور کے ممکنہ وارث کے طور پر دیکھا گیا، یہاں تک کہ انہوں نے اس گروپ میں شمولیت اختیار کی جس نے 2010 میں کمپاور کو اقتدار میں رکھنے کے لیے آئین میں ترمیم شروع کی تھی۔

لیکن کابور اچانک 2012 میں حمایت کھو بیٹھے اور انہیں محض ’سیاسی مشیر‘ بنا دیا گیا-

2014 کے اوائل میں کابور نے ایک اور پارٹی، ایم پی پی، بنانے کے لیے سی ڈی پی سے علیحدگی اختیار کی۔

رائے دہندگان نے پہلی بار 2015 میں انہیں بطور صدر منتخب کیا تھا۔ ان کی عوامی تحریک برائے ترقی (ایم پی پی) نے اپنے دور صدارت میں سڑکوں کی تعمیر، صحت کے نظام کو بہتر بنانے اور صاف پانی تک رسائی فراہم کرنے میں کامیابیوں کا مظاہرہ کیا۔

روش کابور 2020 میں دوسری مدت کے لیے دوبارہ منتخب ہوئے تھے، جنہیں اب معزول کردیا گیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی افریقہ