خونی اتوار کے پچاس سال: جب دس منٹ میں پورا آئرلینڈ دہل اٹھا

آئرلینڈ تنازع کی تاریخ میں سیاہ ترین دن یعنی 30 جنوری 1972 کا وہ اتوار جسے ’بلڈی سنڈے‘ یا خونی اتوار کا نام دیا جاتا ہے۔ اس روز دس منٹ تک برطانوی فوجیوں کی جانب سے جاری رہنے والی فائرنگ نے پورے آئرلینڈ کو دہلا دیا تھا۔

برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے 30 جنوری 1972 کے ’خونی اتوار‘ کو برطانوی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیا ہے۔ اس روز برطانوی افواج نے آئرلینڈ کے اتحاد کا نظریہ رکھنے والے نوجوان مظاہرین پر آتشیں اسلحے سے حملہ کر دیا تھا جس سے 14 ہلاکتیں ہوئیں۔

خونی اتوار کے سانحے کو پچاس سال مکمل ہوئے ہیں لیکن آئرش افراد میں اس کی یادیں اب بھی تازہ ہیں۔

یہ واقعہ آئرلینڈ کے لیے حقوق اور آزادی کی تحریک کا رخ موڑنے والا سانحہ تھا۔ اس کے بعد رد عمل کے طور پر کئی آئرش نوجوانوں نے پر امن احتجاج کا راستہ ترک کے آئرش رپبلکن آرمی میں شمولیت اختیار کر لی اور پر تشدد کارروائیوں پر اتر آئے۔

ڈینیس براڈلی ان افراد میں سے ہیں جنہوں نے خونی اتوار کا واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ اس روز اور بعد کے حالات پر خونی اتوار کے اثرات پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’خونی اتوار کو اصل میں جو ہوا وہ یہ تھا کہ حقوق کے مطالبے کی پر امن تحریک ابدی نیند سو گئی۔‘

اپنے تجربات اے ایف پی کو بتاتے ہوئے براڈلی نے کہا کہ ’ہم نوجوانوں کے ایک گروہ سے ملے جو بہت غصے میں تھے۔ میں نے اس رات ان سے گفتگو کی اور اندازہ لگا لیا کہ اب وہ باز نہیں آئیں گے۔ وہ جوک در جوک آئرش رپبلکن آرمی میں شامل ہو رہے تھے اور پھر وہی ہوا۔‘

ٹونی ڈوہیرٹی اور پال ڈوہیرٹی دو آئرش بھائی ہیں جن کے والد خونی اتوار کے واقعے میں برطانوی فوجیوں کی گولی لگنے سے مارے گئے۔

دونوں بھائیوں نے خونی اتوار کے بعد اپنے والد کے نام پر تحریک کو زندہ رکھنے کے لیے پر تشدد احتجاج کا راستہ اختیار کیا۔ آج پچاس سال بعد بھی انہیں اپنے اقدامات پر کوئی پچھتاوا نہیں۔

ٹونی کا کہنا ہے کہ ’مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ اگر آپ میرے عمل اور برطانوی فوجیوں کے عمل کا موازنہ کریں جنہوں نے خونی اتوار پر ظلم کیا تو میرا عمل معمولی نظر آئے گا۔‘

خونی اتوار کو ہوا کہا تھا؟

شمالی آئرلینڈ سول رائٹس ایسوسی ایشن آئلینڈ کے اکٹھ اور آزادی کی حامی ایک تنظیم تھی۔ اس کی جانب سے 30 جنوری 1972 کو ایک پر امن احتجاجی مارچ منعقد کیا گیا جس میں اپنے نظریے سے تعلق رکھنے والے افراد کو قید کرنے کے خلاف آواز اٹھائی جانی تھی۔

یہ احتجاجی مارچ غیر قانونی تھا کیوں کہ مخالف نطریے کی اس دور کی آئرش حکومت نے ایک سال تک کسی بھی احتجاج پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔

اس کے باوجود مارچ میں شرکت کے لیے 15 ہزار افراد جمع ہو گئے جو ایک جلوس کی صورت لنڈیری شہر کے وسط کی طرف چلنا شروع ہوا۔ شہر کے مرکزی راستے پر برطانوی فوج کی فرسٹ بٹالین پیراشوت رجمنٹ کے فوجی احتجاجی مارچ کا راستہ روکنے کے لیے موجود تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

احتجاج کے دوران ولیم سٹریٹ پر پہلے سے موجود ہجوم میں کچھ نوجوانوں نے برطانوی فوج پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ فوجیوں کو مظاہرین کو گرفتار کرنے کا حکم مل گیا اور بکتر بند گاڑیاں ہجوم کے قریب پہنچ گئیں۔

تقریباً چار بج کر دس منٹ پر فوجیوں نے فائرنگ شروع کر دی۔ دس منٹ تک جاری رہنے والی فائرنگ میں 13 افراد موقعے پر مارے گئے اور 15 زخمی ہوئے۔

فوجیوں کی طرف سے موقف اختیار کیا گیا کہ ان پر ہجوم میں سے کسی نے فائرنگ کی تھی اور کیلوں والے دستی بم پھینکے تھے۔

عدالتی تفتیش اور تحقیقات

ایک رکنی جج پر مشتمل کمیٹی کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات کی ایک نئی رپورٹ کو 2010 میں منظر عام پر لایا گیا۔ اس میں واضح طور پر کہا گیا کہ خونی اتوار سانحے میں مارے جانے والے افراد غیر مسلح تھے۔

تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ برطانوی فوج نے پہلے فائرنگ شروع کی اور اس روز رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں گمراہ کن موقف اختیار کیا۔

اس رپورٹ کے منطر عام پر آنے کے بعد اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے معافی مانگتے ہوئے کہا ’اس میں کوئی شک نہیں کہ خونی اتوار کو جو کچھ ہوا وہ نا انصافی جس کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔ وہ غلط کام تھا۔‘

متاثرین کیا کہتے ہیں؟

خونی اتوار کو مارے جانے والے افراد کی یاد میں ولیم سٹریٹ سے ملحقہ ایک یاد گار بنائی گئی ہے۔ اس تکونی یادگار پر مارے جانےو الے افراد کے نام کندہ ہیں۔ ان میں سے ایک نام پال ڈوہیرٹی کے والد کا ہے۔

یاد گار کے سامنے کھڑے پال نے اے ایف پہ کو بتایا کہ ’خونی اتوار ہم وہ افراد ہیں جنہوں نے برطانوی فوج اور برطانوی حکومت نے خونی اتوار کو جو کچھ کیا اسے بے نقاب کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا۔ ان کے نقطہ نظر سے ہٹ کر۔ یہ بہت ضروری ہے کہ اس کا سلسلہ جاری رہے۔ جب میں بہت بوڑھا ہو جاؤں گا تو میرے پوتوں کی نسل اور اس کے بعد کی نسل اس کہانی کو زندہ رکھے گی۔‘

ایک اور متاثر ٹوئی کا کہنا ہے کہ ’برطانوی فوجیوں کا خیال تھا کہ وہ ہمیں سبق سکھا دیں گے یا دبا لیں گے۔ لیکن شکر ہے کہ اس کا اثر الٹا ہو گیا۔ اگلے ہی ہفتے ایک احتجاجی مارچ ہوا جس میں 40 ہزار افراد شریک تھے۔

ٹوئی نے مارے جانے والے افراد کی یادگار پر موجود ناموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ’بظاہر انہوں نے خونی اتوار کو ہمارے لوگوں کو مار دیا تھا لیکن وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا