برطانیہ نے افغانوں کو روکنے کے لیے لاکھوں پاؤنڈ خرچ کیے

دی انڈپینڈنٹ کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ برطانوی ہوم آفس نے 2016 سے اب تک ایک ایسی کمپنی کو سات لاکھ دو ہزار پاؤنڈ دیے ہیں جو ’مائیگریشن کے رویوں میں تبدیلی‘ پر کام کرتی ہے۔

کابل ہوائی اڈے پر 20 اگست 2021 کو لی گئی تصویر میں برطانوی، ترک اور امریکی فوجی افغانستان سے انخلا کے دوران  ایک افغان بچے کی مدد کر رہے ہیں (اے ایف پی، یو ایس مرین کور، سٹاف سارجنٹ وکٹر مانسیلا)

برطانوی حکومت نے ایک ایسی کمپنی کو سات لاکھ  پاؤنڈ سے زائد رقم دی ہے جس نے طالبان کے کنٹرول میں آنے سے قبل افغانوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ملک نہ چھوڑیں۔

دی انڈپینڈنٹ کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ ہوم آفس نے 2016 سے اب تک ’مائیگریشن کے رویوں میں تبدیلی‘ کی فرم کو کم از کم سات لاکھ دو ہزار پاؤنڈ دیے اور ہوسکتا ہے کہ اسی عرصے کے دوران دفتر خارجہ نے اسے اس سے بھی زیادہ رقم دی ہو۔

فنڈنگ کے باوجود پارلیمنٹ کے ایوانوں میں سیفر نامی آرگنائزیشن کا نام کبھی نہیں لیا گیا اور ہوم آفس نے اس کو دیے گئے کام کی تفصیل دینے سے انکار کر دیا ہے۔

حکومت نے کہا کہ وہ ’کوئی معذرت نہیں کرتی‘ اور لوگوں کے سامنے ان خطرات کو اجاگر کرنا چاہتی ہے جو سمگلروں کے ذریعے کیے جانے والے سفر کے دوران لاحق ہوتے ہیں۔

 ’آن دا موو‘ اور ’دا مائیگرنٹ پروجیکٹ‘ سمیت کثیر لسانی ویب سائٹس سفیر کمپنی سے منسلک ہیں، جو ’تارکین وطن اور ممکنہ تارکین وطن کو باخبر فیصلے کرنے کے قابل بنانے‘ کا دعویٰ کرتی ہیں۔

2021 کے اوائل میں ہانگ کانگ میں قائم کمپنی نے کہا تھا کہ اس نے فروری سے دسمبر 2020 کے درمیان ’افغانستان میں مائیگریشن کے حوالے سے کمنیکیشن مہم‘ چلائی ہے۔

ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ اس مہم کے نتیجے میں ’آدھے سے زیادہ مشاورت کرنے والوں نے نقل مکانی کے متعلق محفوظ اور زیادہ باخبر فیصلے کیے ہیں اور یورپ کے سفر میں ممکنہ طور پر خطرناک متبادلوں سے گریز کیا ہے۔‘

اگست میں برطانوی انخلا کا آپریشن ختم ہونے کے بعد افغانستان میں پھنسے ہوئے کئی افراد کو طالبان نے قتل کر دیا ہے، جن کی تعداد نامعلوم ہے اور 20 ہزار پناہ گزینوں کو دوبارہ آباد کرنے کی وعدہ کردہ سکیم ابھی تک شروع نہیں ہوئی ہے۔

سیفر نے کہا کہ اس نے ان افغانوں کو جو طالبان حکومت سے قبل فرار ہونا چاہتے تھے، متاثر کرنے کے لیے ’بغیر برانڈ نام استعمال کیے میڈیا آؤٹ ریچ‘ کا استعمال کیا اور یورپی حکومتوں کو مشورہ دیا کہ وہ عوامی طور پر خود کو اس طرح کی مہمات سے نہ جوڑیں۔

’بہترین طریقہ کاروں‘ کے حوالے سے اس سال کے اوائل میں شائع ہونے والی ایک دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ’اگر ممکن ہو تو آپ اپنی مہم کو عطیہ دہندگان [جیسے حکومتوں] اور/یا بین الاقوامی تنظیموں کے نام سے نہ جوڑیں ، اس کی بجائے آپ کی مہم کو ایک اکیلے برانڈ سے فائدہ ہوگا جس پر عوام میں بھروسہ کیا جاتا ہے۔‘

حکومت سیفر کو ’منظم امیگریشن جرائم کی روک تھام اور مواصلاتی حکمت عملی پر اثرانداز ہونے‘ کے لیے ایک نئے معاہدے کے تحت عوامی فنڈز میں سے مزید پانچ لاکھ پاؤنڈ دے گی۔

مارچ میں شائع ہونے والے اس معاہدے کے عوامی ریکارڈ میں کہا گیا ہے کہ اس میں ’ایک کثیر لسانی ویب سائٹ اور ٹیلی فون سروس کے ذریعے تارکین وطن کو روکنے اور نقل مکانی کرنے والوں کو بہتر متبادل کا بتانے کی تجاویز شامل ہیں۔‘

دستاویز میں معاہدے کی مالیت پانچ لاکھ پاؤنڈ بتائی گئی ہے لیکن کہا گیا ہے کہ یہ رقم ’سیلنگ فیگر‘ ہے نہ کہ مخصوص کردہ رقم۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگست میں سیفر کو ایک ایسے محکمے کے لیے ’تربیت فراہمی کا فریم ورک‘ فراہم کرنے کے لیے تین سال کا علیحدہ ٹھیکہ دیا گیا تھا جو ’ہوم آفس کی جانب سے بیرون ملک تزویراتی صلاحیت کے ترقیاتی پروگرام فراہم کرتا ہے۔‘

مختلف علاقوں کی ذمہ داری مختلف کمپنیوں کو دی گئی ہے اور سیفر کو ’سرحدیں، نقل مکانی اور پناہ‘ کا سیکشن سونپا گیا۔ معاہدے کی قیمت کو عوامی طور پر ظاہر نہیں کیا گیا۔

سیفر کی ویب سائٹس اپنے آپ کو غیرمنافع بخش تنظیموں کے طور پر پیش کرتے ہوئے ’بے قاعدہ نقل مکانی کے خطرات‘ پر توجہ مرکوز کرتی ہیں اور لوگوں کو ’محفوظ اور قانونی متبادل‘ استعمال کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ اس کی تفصیلات نہیں بتائی جاتیں کہ برطانیہ میں پناہ کا دعویٰ یا بسنے کی درخواست کیسے دی جائے۔

’آن دا موو‘ نامی ویب سائٹ پر درج ہے کہ ’آپ کے پاس ایک انتخاب ہے۔ اپنی جان کو خطرے میں نہ ڈالیں اور برطانیہ پہنچنے کی کوشش میں محنت سے کمائی گئی رقم ضائع نہ کریں۔‘

ہوم آفس نے گذشتہ دسمبر (2020) سے اپریل کے درمیان ویب سائٹ سے منسلک ٹارگٹڈ اشتہارات کے لیے فیس بک اور انسٹاگرام کو 23ہزار پاؤنڈ سے زائد کی ادائیگی کی تھی، یہ ایک مہم کا حصہ تھا جس کا مقصد تارکین وطن کو انگلش چینل کراس کرنے کی کوشش سے روکنا تھا۔

’آن دا موو‘ نامی ویب سائٹ نے اپنے ’ہمارے بارے میں‘ سیکشن میں لکھا ہے کہ ’آن دا موو تارکین وطن کو نقل مکانی کی مفت، قابل اعتماد اور اہم معلومات فراہم کرتا ہے۔ ہجرت کے بارے میںقابل اعتماد اور قابل بھروسہ معلومات تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔‘ اس سیکشن میں برطانوی حکومت سے کوئی تعلق ظاہر نہیں کیا گیا۔

سیفر کی کمپنی کی ویب سائٹ پر یورپی کمیشن کے ساتھ برطانیہ، جرمنی، آسٹریلیا اور نیدرلینڈز کی حکومتوں سمیت حامیوں کی فہرست دی گئی ہے۔

کمپنی کی بنیاد 2014 میں رکھی گئی تھی اور یہ خود کو ’نقل مکانی کے طرز عمل میں تبدیلی کو سمجھنے میں ایک تسلیم شدہ رہنما‘ کے طور پر بیان کرتی ہے، جسے ’بے قاعدہ نقل مکانی مواصلاتی مہمات کے لیے نگرانی اور تشخیص کے طریقوں کو تیار کرنے اور تعینات کرنے کا وسیع تجربہ‘ ہے۔

سیفر کے ایک کتابچے، جس کا مقصد فہرست میں شامل ممکنہ صارفین کی خدمات ہیں، میں ’سیاست دانوں کو بولنے کے لیے لائنیں لکھ کر دینا، آمنے سامنے، فون پر یا آن لائن معلومات اور مشاورت کی فراہمی، نیوز میڈیا اور دستاویزی فلم بنانے والوں کی غیر تسلیم شدہ حمایت‘ اور ’بل بورڈز، ٹیلی ویژن، ریڈیو یا انٹرنیٹ پرتشہیر‘ کی خدمات شامل ہیں۔

عوامی طور پر دستیاب ہوم آفس کے اخراجات کے ریکارڈ میں 2016 سے 2018 کے درمیان سیفر کو کی گئی 12 الگ الگ ادائیگیوں اور گرانٹ کی فہرست دی گئی ہے جن میں سے ہر ادائیگی ایک لاکھ 20 ہزار پاؤنڈز کی ہے، لیکن اس کی تفصیل نہیں ہے کہ وہ کس مد میں تھیں۔

انہیں ہوم آفس کے ’صلاحیت اور وسائل گروپ‘ یا ’اشتہارات، ذرائع ابلاغ اور تشہیر‘ کے گروپ کے طور پر درج کیا گیا ہے۔

ریفیوجی ایکشن کے چیف ایگزیکٹو ٹم نور ہلٹن نے کہا: ’ہم نے اس سال اس بات کے افسوسناک نتائج دیکھے ہیں کہ جب وزرا لوگوں کو محفوظ رکھنے کے بجائے لوگوں کو باہر رکھنے کی کوشش کرنے کی دشمنی پر مبنی پالیسی پر پیسہ ضائع کرتے ہیں تو کیا ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’حکومت کو چاہیے کہ ان مکروہ سکیموں پر کم اور پناہ گزینوں کے لیے برطانیہ میں رہائش کی درخواست کے لیے موثر محفوظ راستے بنانے پر زیادہ وقت صرف کرے۔‘

ہوم آفس نے کہا کہ منصوبوں کی جانچ پڑتال کے لیے ان کے پاس مضبوط عمل موجود ہے جو پیسے کی اچھی قدر ہے اور اخراجات کا ریکارڈ ضوابط کے مطابق شائع کیا جاتا ہے۔

ایک ترجمان نے مزید کہا: ’اگرچہ زندگیوں کو خطرہ ہے، لیکن ہم تارکین وطن کو ممکنہ طور پر زندگی بچانے والی معلومات فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن راستہ استعمال کرنے پر کوئی عذر نہیں کرتے۔‘

انہوں نے کہا کہ گذشتہ ماہ کا المیہ انگلش چینل کراسنگ کے خطرات کی تباہ کن یاد دہانی ہے۔ ان مہلک سفروں کے خطرات کو اجاگر کرنا انتہائی اہم ہے کیوں کہ ان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر لوگ سمگلروں کی طرف رجوع کرتے ہیں تو وہ اپنی جان خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا: ’رواں ماہ اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت کی حمایت سے نیشنلٹی اینڈ بارڈرز بل سیاسی پناہ کے ٹوٹے ہوئے نظام کو ٹھیک کرے گا۔ ہم نظام کے غلط استعمال کو روکنے، غیر قانونی داخلے اور اس سے وابستہ جرائم کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے محفوظ اور قانونی راستوں سے لوگوں کا خیرمقدم کریں گے۔‘

دی انڈپینڈنٹ نے تبصرے کے لیے سیفر کو بار بار درخواست کی لیکن ابھی جواب موصول نہیں ہوا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا