افغانستان کے نوجوان طالبان جنگجوؤں کو درپیش امن کا چیلنج

زیادہ تر طالبان صرف جنگ لڑنا جانتے ہیں اور اگرچہ ان کی میدانِ جنگ کی یادیں فخر کا باعث ہوسکتی ہیں لیکن اب انہیں ایک ایسی دنیا سے ہم آہنگ ہونا چاہیے جو جنگ کے بارے میں بھولنا چاہتی ہے۔

کابل کو فتح کرنے والے طالبان جنگجوؤں کی نوجوان نسل کامیابی کی خوشی سے گزر چکی ہے اور اب انہیں ایک غیر یقینی مستقبل کا سامنا ہے کیوں کہ دو دہائیوں کی جنگ کے بعد انہوں نے جس ملک کا کنٹرول حاصل کیا تھا، اب وہ  شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔

زیادہ تر لوگ صرف جنگ لڑنا جانتے ہیں اور اگرچہ ان کی میدانِ جنگ کی یادیں فخر کا باعث ہوسکتی ہیں لیکن اب انہیں ایک ایسی دنیا سے ہم آہنگ ہونا چاہیے جو جنگ کے بارے میں بھولنا چاہتی ہے۔

اس وقت سقوط کابل کے چار ماہ بعد بھی بہت سے طالبان جنگجو امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر غلبہ پانے کی خوشی منا رہے ہیں، جنہوں نے اتنے سالوں تک ان پر حکومت کی۔

افغانستان کے صوبہ وردک سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ نصرت اللہ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’جب میں نے امریکیوں کے خلاف جہاد کا آغاز کیا تو میری عمر 14 یا 15 سال تھی۔ اس دوران میرا بھائی ہمارا گروپ لیڈر تھا اور میں صرف کچھ لڑائیوں میں حصہ لیا کرتا تھا، لیکن جب میں 20 سال کا ہوا تو میں نے اپنا سارا وقت مجاہدین کے ساتھ اور جنگ میں گزارا۔‘

ںصرت اللہ، جن کی حال ہی میں شادی ہوئی ہے، اب کابل کے ایک پولیس سٹیشن میں سکیورٹی کے انچارج ہیں لیکن جب وہ غبار آلود کرکٹ گراؤنڈ میں چل رہے تھے تو ان کے پاس صرف ایک واکی ٹاکی تھا۔

انہوں نے کہا: ’مجھے بہت خوشی ہے کیونکہ ہم نے ان تمام عزائم کو پورا کیا ہے جو ہم گذشتہ 20 سالوں سے لے کر چل رہے ہیں۔‘

سقوط کابل کے موقع پر اس شہر کے عوام کا پہلا ردعمل بہت مختلف تھا، یہ ایک ایسا شہر تھا جو طالبان کے بہت سے جنگجوؤں نے فتح سے قبل پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

اشرف غنی کی حکومت کا تختہ الٹنے کی طویل مہم کے بعد کابل کی سڑکوں پر لمبے بالوں والے طالبان جنگجوؤں کو دیکھ کر بہت سارے لوگوں کو جھٹکا لگا اور وہ خوفزدہ ہوگئے تھے۔

تاہم یہ احساس اس وقت کم ہوا، جب کلاشنکوف چلانے، ڈھیلے ڈھالے بے ڈھنگے روایتی لباس اور جنگی جیکٹیں پہننے والے جنگجوؤں نے باضابطہ وردی پہننے والی سکیورٹی فورسز کی جگہ سنبھال لی۔

لیکن سابق حکومت سے وابستہ کسی بھی شخص کے خلاف انتقام کے خدشات موجود ہیں اور اس حوالے سے بھی تحفظات پائے جاتے ہیں کہ خواتین اور ان لڑکیوں کا کیا ہوگا جو اب بھی ہائی سکول کی تعلیم سے بڑی حد تک محروم ہیں۔

نصرت اللہ نے طالبان کی ساکھ خراب کرنے کا ذمہ دار امریکی پروپیگنڈے کو قرار دیا۔ ’انہوں نے اپنے تمام وسائل استعمال کیے، لوگوں کی برین واشنگ کی ہے، ہمیں برے لوگوں کے طور پر دکھانے کے لیے ہر طریقہ استعمال کیا۔‘

طالبان جنگجوؤں کے پاس جنگ کی یادیں ہیں جو اب ان کے دنیا کو دیکھنے کے انداز کو تشکیل دیتی ہیں۔

صوبہ وردک سے تعلق رکھنے والے منصور، جنہیں ’مولوی‘ کے لقب سے بلایا جاتا ہے، نے 14 یا 15 سال شورش میں گزارے جن میں سے آٹھ سال وہ کابل کے باہر بدنام زمانہ بگرام جیل میں قید رہے، جہاں بہت سے طالبان کو حراست میں رکھا گیا تھا۔

وہ اب کابل کے ساتویں ضلع کی سکیورٹی کی نگرانی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا: ’جب امریکیوں نے مجھے بتایا کہ آپ قیدی ہیں تو میں نے انہیں بتایا کہ جو لوگ قابض ہوئے ہیں وہ اصل قیدی ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’جیل میرے لیے نہیں تھی، یہ امریکیوں کے لیے تھی۔ ہمیں جسمانی طور پر حراست میں لیا گیا تھا، لیکن ہمارے خیالات پہلے سے کہیں زیادہ آزاد تھے۔‘

بقول منصور: ’جب میں آزاد ہوا تو اگلے دن لڑائی میں شامل ہو گیا۔‘

’مسلمانوں کے لیے ملازمتیں‘

ایک ایسے وقت میں جب افغانستان معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہے، مدرسے کے 18 سالہ طالب علم سید عادل نے طالبان کو درپیش مسائل کو مختصر طور پر یوں بیان کیا ہے۔

انہوں نے بتایا: ’ہمیں خوشی ہے کہ ہماری اسلامی حکومت ہے لیکن اسلامی حکومت کو مسلمانوں کو ملازمتیں فراہم کرنی چاہییں۔ آج تمام مسلمان غربت میں ہیں، کوئی بھی اپنے خاندان کو کھانا فراہم نہیں کر سکتا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکیوں سے لڑنے کے بعد اب طالبان کو نہ صرف افغانستان سے باہر منجمد کیے گئے اربوں ڈالر کے فنڈز بلکہ ان کا تعاون بھی درکار ہوگا۔

انہیں ان ماہرین کو بھی جگہ دینی چاہیے جو پچھلی حکومت کے ساتھ کام کرتے تھے اور اب ملک کی تعمیر نو کے لیے ان کی ضرورت ہوگی۔

طالبان کے گڑھ صوبہ اروزگان میں اپنے والد کے قتل کے بعد بچپن میں کابل آنے والے میڈیکل کے طالب علم مصطفیٰ نے کہا کہ ’میں طالبان یا سابقہ حکومت کا حمایتی نہیں ہوں، میں بحیثیت نوجوان اور بحیثیت افغان شہری بات کرنا چاہتا ہوں۔‘

انہوں نے بتایا: ’میری والدہ ایک ڈاکٹر تھیں، وہ ایک ماہر امراض نسواں تھیں۔ میرے والد سرجن تھے اور میرے کزن اور چچا طالبان ہیں۔‘

’مجھے امید ہے کہ اب طالبان وہ نہیں ہیں جو 20 سال پہلے تھے اور اب معیشت پر زیادہ توجہ مرکوز کی جائے گی اور افغانستان میں غربت کے خلاف جنگ لڑی جائے گی۔‘

عالمی برادری طالبان پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ خواتین کے حقوق کی ضمانت دینے جیسے معاملات پر لچک دکھائیں۔

یہ ایک ایسی تحریک کا امتحان ہوگا جس نے میدان جنگ میں خود کو ثابت کیا لیکن اب اسے امن کے مسائل کا سامنا ہے۔

مولوی منصور نے کہا کہ ’جہاد میں مشکلات ہیں، لیکن ہم مشکلات سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور جب ہم ماضی کی طرف دیکھتے ہیں تو ہمیں خوشی ہوتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا