طالبان جنگجو خود کو پولیس کے کردار میں ڈھالنے کے لیے کوشاں

طالبان کی جانب سے اگست کے وسط میں افغانستان کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد پرانی پولیس فورس کا خاتمہ ہوچکا ہے، لہذا اب وہ دارالحکومت کابل سمیت ملک بھر میں سکیورٹی کی بحالی اور نئی پولیس فورس بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔

عسکریت پسندی میں 13 سال گزارنے والے طالبان جنگجو رحیم اللہ اب آہستہ آہستہ خود کو پولیس اہلکار کے کردار میں ڈھالنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔

دارالحکومت کابل میں بطور پولیس اہلکار ڈیوٹی دینے والے رحیم اللہ بھی باقی طالبان جنگجوؤں کی طرح اس عجیب منتقلی کے عمل سے گزر رہے ہیں جہاں انہیں طویل جنگ و جدل اور خون خرابے کے بعد اب نسبتاً پرامن ماحول میں معمول کے کام سرانجام دینے ہیں۔

طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد دارالحکومت سمیت ملک بھر میں سکیورٹی کی بحالی اور نئی پولیس فورس بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

کابل کے باشندوں کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے کنٹرول سنبھالنے کے بعد سٹریٹ کرائم میں کمی آئی ہے۔ یہ وہی شہر ہے جہاں 1990 کی دہائی میں سنگسار کرنے، سر عام پھانسی دینے اور ہاتھ کاٹنے جیسی سزائیں دینے والے طالبان کی پہلی ’ظالمانہ‘ حکومت کو یاد کرتے ہوئے خوف کا ماحول تھا۔

نوعمری میں ہی ’اسلام اور ملک کی خاطر‘ طالبان میں شمولیت اختیار کرنے والے رحیم اللہ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’یہ (پولیس کی ملازمت) کوئی خطرناک کام نہیں ہے۔‘

وردک صوبے سے تعلق رکھنے والے 28 سالہ رحیم اللہ آٹھ دیگر پولیس اہلکاروں کی ٹیم کے ساتھ کابل کے ایک وسطی ضلعے میں سکیورٹی کے فرائض انجام دیتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے کام میں ’چوروں، قاتلوں اور شراب پینے والوں کو پکڑنا شامل ہے۔‘

ایک سینیئر طالبان عہدیدار کی نگرانی میں انہیں شہر میں گشت کی اجازت دی گئی تھی۔

ان کے دیگر ساتھی اس بات سے بے خبر دکھائی دیتے ہیں کہ قدامت پسندی اور دیہی علاقوں میں زندگی گزارنے کے بعد اب شہر میں اس نئے کردار میں خود کو کیسے ڈھالا جائے۔

گشت کی نگرانی کرنے والے طالبان کمانڈر نے اعتراف کیا کہ ’یہ کام (پولیس کی ڈیوٹی) ہمیں پسند نہیں ہے، لیکن یہ ہم ذمہ داری سمجھ کے کر رہے ہیں۔‘

سابق فورس کی طرح جیکٹوں اور پتلونوں کی بجائے بہت سے طالبان پولیس اہلکار اب تک روایتی افغان شلوار قمیص میں ہی ملبوس دکھائی دیتے ہیں۔

کچھ کے پاس پرانے افغان یونیفارم میں استعمال ہونے والے نیلے اور سیاہ کیموفلاج والے کپڑے سے سلی نئی وردیاں موجود ہیں۔

کابل کے ایک پولیس سٹیشن پر طالبان کے سفید پرچم کے ساتھ سابقہ پولیس فورس کا نشان اب بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

افغانستان کے کچھ حصوں میں ماضی کی طرح طالبان کی جانب سے سزائیں دینے کا مشاہدہ کیا گیا ہے، جہاں گذشتہ ہفتے ہرات شہر میں چار مشتبہ اغوا کاروں کی لاشوں کو کرین کے ذریعے ایک چوراہے پر لٹکا دیا گیا تھا۔

طالبان کی جانب سے اگست کے وسط میں افغانستان کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد پرانی پولیس فورس کا خاتمہ ہوچکا ہے کیونکہ سابق پولیس اور سرکاری ملازمین انتقام اور برے سلوک سے خوفزدہ ہو کر چھپ گئے ہیں یا ملک چھوڑ کر فرار ہوگئے ہیں۔

طالبان حکام افغانستان میں امن و امان کے اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لیے پرعزم ہیں جہاں امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کے تحت انصاف کا نظام بدعنوانی اور ناکامی سے دوچار تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طالبان کی وزارت داخلہ کے ترجمان قاری سید خوستی نے کہا کہ نئی پولیس فورس کے لیے ایک تربیتی پروگرام جاری ہے اور ہر سطح پر پیشہ ور افراد تعینات کیے جائیں گے۔

دوسری جانب کابل پولیس کے ترجمان سراج الدین عمری نے بتایا کہ دارالحکومت میں نئی پولیس فورس میں پہلے ہی تقریباً چار ہزار اہلکار بھرتی کیے گئے ہیں۔

عمری نے کہا: ’گذشتہ حکومت کے دوران یہاں ہر روز 300 سے 400 جرائم کے واقعات رپورٹ ہوتے تھے، لیکن اب مجموعی طور پر ایک دن میں محض 15 کے قریب کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔‘

پولیس ترجمان کی جانب سے بتائے گئے ان اعداد و شمار کی آزادانہ طور پر تصدیق ممکن نہیں ہے لیکن کابل کے شہری عام طور پر اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ڈکیتی اور اغوا جیسی وارداتوں میں کمی آئی ہے۔

افغان سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان جنگ ختم ہونے کے بعد شہر میں آئے روز ہونے والے بم دھماکے بھی ڈرامائی طور پر کم ہوئے ہیں۔

اگرچہ پرتشدد زندگی گزارنے والے ان نئے پولیس اہلکاروں کے لیے امن و امان قائم رکھنا مشکل ہوسکتا ہے لیکن مشرقی کابل میں ایک چوکی پر ڈیوٹی پر موجود 25 سالہ یحییٰ منصور کا کہنا ہے کہ وہ لڑائی کو یاد نہیں کرتے اور عوام کی خدمت کے لیے بے چین ہیں۔

انہوں نے کہا: ’اس سے پہلے ہم ’جہاد‘ کرکے خدمت کر رہے تھے اور اب ہم اپنے ملک کی تعمیر نو کر رہے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا