کابل میں داعش خراسان کا سیل تباہ کر دیا: طالبان

طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق اتوار کی رات کابل میں ’کامیاب کارروائی میں داعش خراسان کا سیل تباہ جبکہ اس میں موجود تمام عسکریت پسند مارے گئے۔‘

تین اکتوبر، 2021 کی اس تصویر میں طالبان کا ایک مسلح گارڈ کابل کے نواح میں  طالبان     کے حق میں نکلنے والی ریلی کا  پہرہ دے رہا ہے (اے ایف پی)

افغان طالبان نے پیر کو کہا ہے کہ ان کی فورسز نے کابل میں داعش خراسان کے ایک ٹھکانے پر حملہ کرکے متعدد عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا۔ یہ حملہ کابل میں واقع مسجد کے باہر بم حملے کے کئی گھنٹے بعد کیا گیا۔

اتوار (تین اکتوبر) کو عید گاہ مسجد کے باہر ہونے والے بم حملے میں پانچ افغان شہری ہلاک ہوگئے تھے۔

کسی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، تاہم فوری طور پر اس کا شبہ داعش پر ظاہر کیا گیا تھا، جس نے اگست کے وسط میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ان پر دشمن کے طور پر حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔

طالبان حکام اپنے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی والدہ کی وفات پر تعزیتی تقریب کے لیے مسجد میں اکٹھے ہوئے تھے۔

پیر کو طالبان نے ایک بیان میں بتایا کہ طالبان فورسز نے کابل کے شمالی علاقے خیرخانہ میں داعش کے ایک آپریشن سینٹر پر حملہ کیا۔

طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں بتایا کہ ’گذشتہ شب اسلامی امارت کے مجاہدین کے خصوصی یونٹ نے کابل کے 17 حلقے میں داعش عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کی اس فیصلہ کن اور کامیاب آپریشن کے نتیجے میں داعش کا مرکز مکمل طور پر تباہ ہو گیا اور اس میں موجود داعش کے تمام ارکان مارے گئے۔‘

داعش خراسان کی جانب سے اب تک اس کارروائی پر کوئی ردعمل نہیں آیا۔

اتوار کا بم حملہ 31 اگست کو آخری امریکی فوجی کی افراتفری میں روانگی اور طالبان کے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سب سے مہلک حملہ تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے پہلے داعش نے 26 اگست کو ہونے والے خوف ناک بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی، جس میں 169 سے زائد افغان اور 13 امریکی فوجی اہلکار کابل ہوائی اڈے کے باہر مارے گئے تھے۔

2019 میں افغانستان کے مشرقی حصے میں امریکی بمباری کے نتیجے میں داعش کمزور ہو گئی تھی لیکن بعد میں 2020 میں اس نے دوبارہ سر اٹھا لیا۔

داعش پر 2020 میں ایک میٹرنٹی ہسپتال پر خوف ناک حملے کا الزام لگایا گیا جس میں نومولود بچوں سمیت 24 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

اس سال کے شروع میں انہیں افغانستان کے شیعہ اکثریتی علاقے دشت برچی میں ایک سکول پر وحشیانہ حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا، جس میں 80 سے زیادہ طلبہ ہلاک ہوئے تھے۔

اتوار کا بم دھماکہ طالبان کے لیے بڑھتے ہوئے چیلنجز کی نشاندہی کرتا ہے۔ طالبان نے 20 سال تک جاری رہنے والی عسکریت پسندی کے دوران تواتر کے ساتھ حملے کیے لیکن اب وہ ان حریف عسکریت پسندوں پر قابو پانے کی کوششوں میں مصروف ہیں جو وہی طریقے استعمال کر رہے ہیں۔

داعش کی طرف سے ایسے وقت میں حملے کیے جا رہے ہیں جب افغان معیشت زبوں حالی کا شکار ہے اور وہ امداد نہیں مل رہی جو ماضی میں امریکی حمایت یافتہ حکومت کو ملتی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا