داعش پاکستان کے لیے کتنا بڑا خطرہ ہے؟

چونکہ افغان صوبے کنٹر اور ننگرہار پاکستان کے قریب ہیں اور پاکستانی طالبان کی ایک بڑی تعداد بھی داعش کے ہاتھوں پر بیعت کر چکی ہے، اس لیے اس بات کا امکان بھی ہے کہ پاکستان کے لیے بھی داعش ایک بڑا چیلنج بن کر ابھرے گی۔

16 اکتوبر 2014 کی اس تصویر میں کراچی کے ضلع ملیر  میں واقع ایک ویران  پولیس چوکی پر داعش کی وال چاکنگ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف کہتے ہیں کہ بھارت میں مبینہ طور پر داعش کے تین کیمپ موجود ہیں۔ ایک راجستھان، دوسرا اتر کھنڈ اور تیسرا بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے گلمرگ میں، جہاں بھارتی خفیہ ایجنسی داعش کے جنگجوؤں کو تربیت دے رہی ہے اور پاکستان کے پاس اس کے شواہد موجود ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت داعش کو کشمیر میں استعمال کرے گا اور پھر دنیا کو دکھا کر کشمیر میں اپنے جنگی جرائم کی صفائی دے گا۔

مشیر قومی سلامتی کے ان  دعوؤں کو اگر ایک طرف رکھ بھی دیا جائے تب بھی ماضی میں افغانستان میں القاعدہ سمیت جنگجو گروپ ایسی منصوبہ بندی میں شامل رہے ہیں کہ وہ بھارت میں کوئی ایسی کارروائی کریں، جس کا براہ راست الزام پاکستان پر آئے اور اس طرح دونوں ملکوں کے درمیان جنگ چھڑ جائے۔ اس میں بظاہر ان کے دو مقاصد ہیں ایک تو یہ کہ جنگ کے نتیجے میں افراتفری اور بد امنی ہوگی جس میں ایسے گروپوں کو کھل کھیلنے کا موقع ملے گا اور دوسرا یہ کہ ریاستیں کمزور ہوں گی جس میں انہیں اپنے اہداف کے حصول میں آسانی ہوگی۔

ماضی میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ، پلوامہ اور ممبئی حملوں میں دونوں ملک جنگ کے دھانے پر پہنچ بھی گئے تھے۔ اب بھی داعش یا دیگر جنگجو گروپ ایسی کارروائیوں کی صلاحیت رکھتے ہیں، تاہم مشیر سلامتی کا یہ کہنا کہ داعش کی سرگرمیاں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کی زیر سرپرستی جاری ہیں تو یہ بات دل دہلا دینے والی ہے۔ اس بات میں اگرچہ کوئی شبہ نہیں کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں اپنے اپنے اہداف کے حصول کے لیے ایسے جنگجو گروپوں کے اندر گھسنے اور انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس کی ایک مثال ممبئی حملوں میں ایک امریکی شہری ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کی شمولیت بھی ہے۔ جب ڈیوڈ کولمین ہیڈ لی کا نام ان حملوں میں آیا تو اس کے بعد سے اسے امریکہ میں گرفتار کرلیا گیا، مگر اس سے کیا معلومات حاصل ہوئیں، اس حوالے سے پاکستان اور بھارت دونوں کو بے خبر رکھا گیا ہے۔

تاہم یہ جاننا ضروری ہے کہ داعش کا خراسان چیپٹر ہے کیا؟ یہ کب اور کیسے وجود میں آیا اور اس کے اہداف کیا ہیں؟

کابل میں حالیہ بم دھماکوں، جس کے نتیجے میں 13 امریکی فوجیوں سمیت 170سے زائد افغان شہری مارے گئے تھے،کے بعد سے داعش کو افغانستان اور خطے کے لیے ایک بڑے خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ داعش کا خراسان چپٹر 2014 میں اس وقت وجود میں آیا تھا جب القاعدہ اور افغان طالبان کے بہت سے جنگجو اپنے اپنے گروپوں کو چھوڑ کر داعش میں شامل ہو گئے تھے، جس میں تحریک طالبان پاکستان کے بعض اہم کمانڈر بھی شامل تھے۔

2015 میں داعش نے اپنے خراسان چیپٹر کا باضابطہ اعلان کر دیا اور داعش کے امیر ابو بکر البغدادی نے حافظ خان سعید کو اس کا پہلا امیر نامزد کر دیا، جو اس سے پہلے اورکزئی ایجنسی میں ٹی ٹی پی کے کمانڈر رہ چکے تھے، جو بعد میں 2016ء میں ننگر ہار میں مارے گئے۔ داعش اور افغان طالبان ایک دوسرے سے مد مقابل بھی رہے اور پاکستانی طالبان کے کمانڈر ملا اختر منصور نے دونوں کو قریب لانے کی کوشش بھی کی۔ حقانی نیٹ ورک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے بعض موقعوں پر داعش کے ساتھ تعاون کیا، مثال کے طور پر افغان حکام کے مطابق 2018 میں ایک حملہ ایسا بھی تھا جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی مگر اسے سرانجام حقانی نیٹ ورک نے دیا تھا۔

تاہم داعش، افغان طالبان، افغان اور نیٹو فورسز ہر طرف سے نشانے پر رہی ہے، جس کی وجہ سے اس کے جنگجوؤں سمیت اہم کمانڈر بھی مارے گئے۔ اسلم فاروقی، قاری زاہد اور سیف اللہ جیسے اس کے رہنماؤں کو مارچ 2020 میں قندھار میں گرفتار بھی کرلیا گیا، جس کے  بعد داعش نے شہاب المہاجر کو نیا امیر نامزد کردیا جو اس سے پہلے حقانی نیٹ ورک میں درمیانے درجے کا ایک کمانڈر رہ چکا تھا۔ جس کے بعد داعش نے مئی 2020 میں کابل میں ہسپتال اور یونیورسٹی پر بڑے حملے کیے، جن میں 36 لوگ مارے گئے۔

اقوام متحدہ کے مطابق داعش کے خراسان چیپٹر میں پندرہ سو سے دو ہزار کے قریب جنگجو شامل ہیں، جو کسی بھی جگہ حملے کرنے کی سکت رکھتے ہیں، جس کی ایک مثال 26 اگست کو کابل ایئرپورٹ پر ہونے والے حملے بھی ہیں۔

اب جبکہ افغان طالبان، افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد جنگ بند کر چکے ہیں۔ داعش کی جانب سے کابل ایئرپورٹ پر ہونے والے حملے اس بات کا اشارہ ہیں کہ داعش اپنی آئیڈیالوجی کو آگے بڑھاتے ہوئے افغانستان میں طالبان کی امارت اسلامیہ کے مقابلے میں عالمی اسلامی خلافت کا تصور پروان چڑھائے گی۔ اس کا خراسان چیپٹر پاکستان، افغانستان، ترکمانستان، تاجکستان، ازبکستان اور ایران پر مشتمل ہے اور داعش کے مطابق جو بھی شریعت کے نفاذ میں رکاوٹ بنے گا اس پر تکفیر لاگو ہوتی ہے، جس کی سزا موت ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

داعش کی آئیڈیالوجی القاعدہ سے نکلی ہے جس میں اہل تشیع کے خلاف قاتلانہ حملے بھی شامل ہیں جن میں افغانستان میں شیعہ ہزارہ کے خلاف انہوں نے کئی حملے کیے ہیں۔ داعش طالبان کے امریکہ کے ساتھ امن معاہدے کی بھی مخالف رہی ہے اور اس کا موقف ہے کہ طالبان کی بنیادیں عالمی جہاد کے بجائے قومیت اور نسل پر مبنی ہیں۔

اس وقت اگرچہ داعش کا کمانڈر شہاب المہاجر عرب ہے، تاہم اس میں جنگجوؤں کی اکثریت کا تعلق ٹی ٹی پی سے ہے۔ اس میں القاعدہ اور لشکر طیبہ سے علیحدہ ہونے والے جنگجو بھی شامل ہیں۔ جنوری 2020 سے جولائی 2021 کے درمیان داعش نے افغانستان میں 83 حملے کیے، جن میں 309 ہلاکتیں ہوئیں، جن میں سے 35 حملے عام شہریوں اور 28 سکیورٹی فورسز پر کیے گئے۔ اس وقت داعش کے ننگر ہار، کنڑ اور کابل کے نواح میں کئی چھوٹے چھوٹے سیل کام کر رہے ہیں اور اس بات کا خدشہ ہے کہ طالبان کے دور میں ان کی قوت میں مزید اضافہ ہو گا۔

چونکہ کنٹر اور ننگرہار پاکستان کے قریب ہیں اور پاکستانی طالبان کی ایک بڑی تعداد بھی داعش کے ہاتھوں پر بیعت کر چکی ہے، اس لیے اس بات کا امکان بھی ہے کہ پاکستان کے لیے بھی داعش ایک بڑا چیلنج بن کر ابھرے گی۔ اسی سال پشاور کے ایک مدرسے اور مچھ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے 11 کان کنوں کی ہلاکت کی ذمہ داری بھی داعش قبول کر چکی ہے۔ گذشتہ دو سال میں داعش نے پاکستان میں چھوٹے بڑے تین درجن سے زائد حملے کیے ہیں۔ افغانستان میں خانہ جنگی اور افراتفری ہوتی ہے تو داعش افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج بن کر ابھرے گی، جس کا ایک ثبوت داعش کا اردو زبان میں آن لائن میگزین ’یلغار‘ کا اجرا بھی ہے جس میں پاکستان کی ریاست اور حکومت کے خلاف سنگین زبان استعمال کی گئی ہے۔

پاکستان میں داعش کی سرگرمیوں پر سکیورٹی اداروں کی گہری نظر ہے اور داعش کے بارے میں ’نو ٹالرنس‘ کی پالیسی ہے۔ اگر اسے بھارت میں سرکاری چھتری میسر آگئی تو داعش مستقبل میں پاکستان کے لیے سنگین چیلنج بن کر ابھرے گی، تاہم یہ سوال اپنی جگہ اہم ضرور ہے کہ جو گروپ اپنے خیالات میں انتہائی سخت گیر ہے اور جو عالمی خلافت کے لیے سرگرم ہے، وہ بھارت کے ساتھ کیسے ہاتھ ملائے گا، جس پر بھارت میں مسلمانوں اور کشمیریوں کی نسل کشی کا الزام ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ