’افغانستان میں صرف دو کاروبار زوروں پر چل رہے ہیں‘

طالبان کی سفارتی تنہائی کی وجہ سے افغان معیشت بری طرح سے عدم استحکام کا شکار ہے لیکن اس کے دو شعبے اب بھی پھل پھول رہے ہیں۔

افغان سکیورٹی فورسز کے اہل کار درۂ نور کے علاقے میں دس اپریل 2018 کو افیم کی فصل کو ضائع کر رہے ہیں (اے ایف پی)

ایران کے ساتھ افغانستان کی سرحد پر واقع زرنج کے سرحدی قصبے میں نوجوان دھکم پیل کرتے ہوئے پک اپ گاڑی میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں جو سرحد پار سمگلنگ کے لیے وقفے وقفے سے نکلتی رہتی ہے۔ انسانی سمگلنگ افغانستان کی معیشت کے ان چند شعبوں میں سے ایک ہے جو مسلسل فروغ پا رہے ہیں۔ دوسرا منشیات ہے۔

زرنج کے مشرق میں تقریباً 950 کلومیٹر کے فاصلے پر طبائی کے ایک دور دراز اور سرد پہاڑی درے پر مرد حضرات اپنے بھرے ہوئے بستوں کے ساتھ سرحد پار کرتے ہیں جس کے بعد وہ پاکستان کے ’قبائلی علاقوں‘ میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ان کے سامان میں پشاور اور کراچی کے بازاروں کے لیے ہیروئن کے تھیلے چھپے ہوتے ہیں جن کا بیشتر حصہ بالآخر اپنی آخری منزل برطانیہ جا پہنچا ہے۔ 

 منشیات اور لوگوں کی سمگلنگ اہمیت حاصل کرتی جا رہی ہے کیونکہ معیشت کے دیگر شعبے سکڑنے یا بند ہونے کی طرف مائل ہیں اور غربت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ 

ان دونوں غیر قانونی معاشی سرگرمیوں میں پیچیدہ لاجسٹکس، انفراسٹرکچر اور دلالوں کے نیٹ ورک شامل ہیں تاکہ انسانوں یا ممنوع منشیات کو ملک سے باہر پہنچایا جا سکے۔ طالبان کے قبضے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سیاسی افراتفری کے دوران ان دونوں نے فوراً اور نمایاں رفتار سے فروغ پایا ہے۔ 

مقامی لوگوں کے مطابق زرنج میں حکومت کی تبدیلی سے پہلے 2014-15 میں لیبر مارکیٹ سکڑنے اور بین الاقوامی عسکری انخلا کے نتیجے میں اقتصادی سرگرمیاں سرد پڑنے سے اس وقت لوگوں کو سمگل کرنے کا کاروبار اپنے عروج پر تھا۔ اب دوبارہ یہ کاروبار عروج پکڑ رہا ہے اور قیمتیں بھی۔ 

ڈنمارک کی کونسل برائے پناہ گزین کی ایک رپورٹ کے مطابق سیاسی بحران سے پہلے ہی  افغانستان سے ترکی پہنچانے کے بدلے میں افغانوں سے اوسطاً ایک ہزار 710 ڈالر مانگے جا رہے تھے۔ اندازے کے مطابق حالیہ ہفتوں میں سرحد پار کرنے والوں کی تعداد دگنی ہو گئی ہے۔ طالبان کے قبضے سے پہلے ہر روز تقریباً 400 گاڑیاں تارکین وطن کو پاکستان کے راستے ایران لے جاتی تھیں۔ ستمبر، اکتوبر میں یہ تعداد بڑھ کر بارہ سو تک ہو گئی تھی جو کمی کے بعد اب 600 گاڑیاں روزانہ تک آن پہنچی ہے۔

پاکستان سے ہو کر جانے والے بلوچستان کے سرحدی علاقے ماشکیل کے طویل راستے کی فیس اس عرصے کے دوران ابتدائی طور پر چار سے چھ گنا تک بڑھی ہے۔ البتہ ایران کے سرکاری سرحدی راستے زیادہ تر تارکین وطن کے لیے بند ہیں۔

منشیات کی تجارتی اہمیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد منشیات کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا۔ ننگرہار میں خشک افیون کا ایک افغانی سیر جو تقریباً 1.25 کلوگرام بنتی ہے، اس کی قیمت 20 ہزار پاکستانی روپے سے بڑھ کر 33 ہزار تک جا پہنچی۔ نمروز میں افیون 10 ہزار پاکستانی روپے سے بڑھ کر 28 ہزار فی کلوگرام کے حساب سے بکنے لگی۔ قیمتوں میں اضافے کی بڑی وجہ تاجروں کا اس وقت یہ مال خرید لینا تھا جب ہر طرف غیریقینی صورت حال کے بادل چھائے تھے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن جیسے ہی یہ واضح ہوا کہ طالبان آسانی سے اپنا اقتدار مضبوط کر لیں گے تو قیمتیں نیچے آ گئیں اور مستحکم ہو گئیں۔ منڈی میں اس وجہ سے بھی اعتماد کی فضا قائم ہوئی کہ ان علاقوں میں افیون کے بازار کھلنے لگے جن پر پہلے حکومت کی عمل داری ہوتی تھی۔ ننگرہار کے دربابا جیسے اضلاع میں منشیات کی تجارت پر طالبان کے عائد کردہ ٹیکس سے ان کی اجارہ داری عیاں ہوتی ہے جہاں وہ افیون پر فی سیر ایک ہزار پاکستانی روپے، چرس پر فی کلو 500 اور ہیروئن پر فی کلو دو ہزار ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ 

طالبان اور منشیات سے وابستہ معیشت

بین الاقوامی دباؤ، بدترین معاشی حالات اور اس بحران میں مسلسل اضافے کے بعد اس بات کا بہت ہی کم امکان ہے کہ طالبان منشیات سے وابستہ معاشی سرگرمیوں کے خلاف قدم اٹھائیں گے۔ کابل میں منشیات استعمال کرنے والے افراد کے خلاف اکثر سخت کاروائی سے گریز ہی برتا جاتا ہے۔ 

ابھی تک ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے کہ طالبان منشیات سے جڑے دیگر سلسلوں کو نشانہ بنائیں گے جیسا کہ کاشت کاری، اس کی صفائی اور تیاری، تجارت اور سرحد پار سمگلنگ۔ داعش خراسان کے برعکس طالبان کے لیے منشیات کی کاشت کاری اور سمگلنگ کوئی نظریاتی معاملہ نہیں ہے، بلکہ ممکنہ طور پر مغرب سے مالی امداد کے حصول اور اپنا اقتدار تسلیم کروانے کے لیے ان کے پاس یہ ایک مضبوط مذاکراتی نکتہ ہو گا۔  

اس کے ساتھ ساتھ منشیات کے تاجر اس کی ذخیرہ اندوزی بھی کرتے جا رہے ہیں کہ اگر طالبان کی یہ نرم پالیسی تبدیل ہو تو ان کے پاس پہلے سے مال پڑا ہو۔ افغان طالبان کہتے رہے ہیں کہ وہ منشیات کے کاروبار کے سخت مخالف ہیں۔

منشیات کی معیشت کی تہہ میں موجود عدم استحکام، ناقص طرز حکمرانی اور وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی غربت جیسے بنیادی محرکات اس قدر مضبوط ہیں کہ پوست کی کاشت میں مسلسل کمی لانے کا کوئی قابل اعتبار یا انسانی حل نظر نہیں آتا۔ گذشتہ بیس برسوں کے دوران عالمی سطح پر مشہور اداروں اور ملکوں کی جانب سے انسداد منشیات کی کوششوں میں کی گئی اربوں پاؤنڈز کی سرمایہ کاری ناکام رہی اور اب منشیات پر پابندی عائد کرنے کے لیے طالبان کے پاس نہ تو وسائل ہیں اور نہ ہی فطری رجحان۔

ایسا کرنے سے جو لوگ پہلے ہی غربت میں پھنسے ہیں وہ مزید بری طرح دھنس جائیں گے اور ساتھ ہی پشتونوں پر مشتمل جنوب کے پوست کاشت کرنے والے علاقوں میں طالبان کی حمایت کو بھی نقصان ہو گا۔ مزید برآں اس سے حکومت کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ بھی منقطع ہو جائے گا۔ 

سرحدی علاقوں کا کاروبار

افغانستان کی غیر قانونی منشیات کی پیداوار اور سمگلنگ زیادہ تر سرحدی علاقوں میں ہوتی ہے جس کی بنیاد وہ قدیم تجارتی نیٹ ورکس اور سماجی رابطے ہیں جو افغانستان کی جدید ریاست سے پہلے موجود تھے اور جنہیں چار سے زائد دہائیوں پر مشتمل جنگ سے تقویت ملی ہے۔ 

مغرب کی جانب سے ملنے والی معاشی امداد کی اچانک بندش نے ایک معاشی، سیاسی اور سماجی نظام کو بے نقاب کر ڈالا ہے جس کے نہ صرف خد و خال بیرونی مالی معاونت، تیکنیکی امداد اور عسکری صلاحیتوں کے مرہون منت تھے بلکہ وہ بری طرح سارا انحصار بھی اسی پر کیے ہوئے تھا۔ موجودہ تناظر میں بنیادی صحت اور تعلیم سمیت کسی بھی عوامی شعبے کی سرگرمیاں بحال رکھنے کے لیے طالبان کی حکومت کو مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بڑے پیمانے پر لوگوں کے پاس ذاتی زرعی زمین نہ ہونے، زرعی رقبے میں بتدریج ہونے والی کمی اور موسمیاتی آفات کے سبب بار بار ہونے والی خشک سالی کی وجہ سے دیہی افغانستان کے سرحدی علاقوں کے باسیوں کے پاس زندہ رہنے کے لیے پہلے ہی وسائل بہت محدود ہیں۔ 

سرحدی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی دو معاشی سرگرمیوں سمگلنگ اور منشیات کو غیر یقینی صورت حال کے ردعمل کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

 سرحدی علاقے بہتری کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے والے اور اختراعی مقامات ہوتے ہیں، اکثر غیر یقینی صورت حال اور تغیر کے دوران یہی علاقے سب سے پہلے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ بینکنگ بحران کی وجہ سے قانونی معاشی سرگرمی کو شدید نقصان پہنچا ہے، انسانی سمگلنگ اور منشیات کی صنعتوں میں ’حوالہ‘ اور ہنڈی  یعنی غیر رسمی ایکسچینج سسٹم کے ذریعے سرمایہ کاری جاری ہے۔

بدقسمتی سے بین الاقوامی ردعمل سردمہری اور تعصب پر مبنی رہا ہے۔ مغربی حکومتوں کی جانب سے غیر معینہ مدت تک ’دیکھو اور انتظار کرو‘ کی حکمت عملی، طالبان کے ساتھ متنازع معاملات پر سرعام الجھنے کی سفارت کاری یا افغانستان کی غیر قانونی تجارت کو ’اس کے اپنے حال پر چھوڑنے‘ سے علاقائی اور عالمی اثرات کے حامل انسانی، مالی اور سلامتی کے بحران مزید گہرے ہوں گے۔ انسانوں کی بہتری اور نئے منصوبوں کے لیے مالی امداد فوراً اور بڑے پیمانے پر فراہم کی جانی چاہیے۔  

-----

یہ تحریر پہلے ’دا کنورسیشن‘ پر چھپی تھی، یہاں ان کی اجازت سے اس کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔

اس تحریر کے مصنف جوناتھن گڈہینڈ اور جان کوئلر ہیں۔ گڈہینڈ یونیورسٹی آف لنڈن کے سکول آف اوریئنٹل اینڈ ایفریکن سٹڈیز میں کنفلکٹ سٹڈیز کے پروفیسر ہیں۔ جب کہ کوئلر اسی یونیورسٹی میں ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا