مقامی حکام اور بچوں کی بقا پر کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے نے کہا ہے کہ افغانستان میں غذائی قلت کا بحران ہے اور کئی بچے بھوک کی وجہ سے جان سے جا چکے ہیں۔
اس سے پہلے خبردار کیا گیا تھا کہ ملک میں سال کے آخر تک غذائی قلت لاکھوں بچوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
غذائی قلت کے سب سے زیادہ شکار صوبے غور کے پبلک ہیلتھ ڈائریکٹر محمد احمدی نے بتایا ہے کہ صوبے میں گذشتہ چھ ماہ کے دوران جن لوگوں کو ہسپتال لایا گیا ان میں 17 بچے بھی تھے جو غذائی قلت کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے گئے۔
محمد احمدی کا کہنا تھا کہ بھوک سے متاثرہ تقریباً 300 بچوں کا علاج کیا گیا جبکہ ملک کے وسطی حصوں میں سینکڑوں بچوں کو بھوک کا شکار ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔
دوسری جانب افغانستان میں بچوں کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے کے ترجمان نے کہا ہے کہ وہ غور میں بھوک سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کی تصدیق نہیں کر سکتے لیکن انہیں ’ڈر ہے کہ بچوں کی بڑی تعداد ملک کے حالات کی حتمی قیمت ادا کر رہے ہیں۔‘
یونیسف کے سلام الجنابی نے کہا کہ ان کے ادارے کے نگرانی کے نیٹ ورک نے کام بند کر دیا ہے اور اب سنی سنائی اطلاعات پر انحصار کیا جا رہا ہے۔
الجنابی کے بقول: ’یہ بہت تکلیف دہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ ایسی صورت حال (غذائی قلت) ہے ہم جس کے دھانے پر ہیں یا اس میں گھرے ہوئے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگست کے وسط میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان میں پہلے ہی موجود سنگین انسانی بحران مزید سنگین ہو گیا ہے۔ عالمی امداد اور مالی معاونت بند ہونے کی وجہ سے خشک سالی، خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ملازمتیں ختم ہونے کے اثرات مزید گھمبیر ہو گئے ہیں۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اس سال کے آخر تک افغانستان میں پانچ سال کی عمر تک کے لاکھوں بچوں کو زندگی کے لیے خطرہ بن جانے والی شدید غذائی قلت کے پیش نظر علاج کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ 33 لاکھ بچے شدید نوعیت کی غذائی قلت کا شکار ہو جائیں گے۔