20 ممالک میں 250 ملین افراد قحط سالی کے دہانے پر

اقوام متحدہ کے ہیومینیٹیرین دفتر نے رواں ہفتے قحط کے خطرے سے دوچار سات ممالک یمن، افغانستان، جنوبی سوڈان، ایتھوپیا، نائیجیریا، کانگو اور برکینا فاسو کے لیے 100 ملین ڈالر کا ہنگامی فنڈ جاری کیا۔ ​​​​​​​

(فائل تصویر: اے ایف پی)

یمن کے شمال میں بے گھر افراد کے ایک کیمپ میں کھجور کے پتوں کے بستر پر بستر پر دو جڑواں بچے موجود تھے، ان کی گردن کی ہڈیاں اور پسلیاں جسم سے باہر آتی دکھائی دے رہی تھیں۔ وہ زور زور سے رونے لگے جیسے کسی تکلیف میں ہوں لیکن یہ رونا بیماری کی وجہ سے نہیں بلکہ بھوک کی وجہ سے تھا۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ڈاکٹروں نے بتایا کہ 18 ماہ کے جڑواں بچوں محمد اور علی کا وزن صرف 3 کلو گرام یا 6.6 پاؤنڈ ہے، جو کہ مطلوبہ وزن کے ایک تہائی سے بھی کم ہے۔

ان کے والد حسن الجماعی  سعودی عرب کی سرحد کے قریب شمالی صوبہ حجاجہ میں کھیتی باڑی کرتے تھے، تاہم ان کی پیدائش کے فوراً بعد اس خاندان کو آبس ضلع کے ایک کیمپ میں پناہ لینی پڑی۔

جڑواں بچوں کی نانی مریم حسام نے کہا: 'ہم ان کی صحت کی بہتری کی جدوجہد کر رہے ہیں، ان کے والد انہیں ہر جگہ لے گئے۔'

یمن کی 28 ملین آبادی میں سے دو تہائی افراد بھوک کا شکار ہیں اور ایک حالیہ سروے سے معلوم ہوا ہے کہ اس سال شدید شدید غذائیت کے واقعات میں 15.5 فیصد اضافہ ہوا ہے اور کم سے کم 98 ہزار بچے موت کا شکار ہوسکتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی ایجنسیوں نے متنبہ کیا ہے کہ دنیا کے 20 ممالک میں تقریباً 250 ملین افراد کو آئندہ مہینوں میں غذائی قلت یا پھر قحط سالی کا خطرہ ہے۔

اقوام متحدہ کے ہیومینیٹیرین دفتر نے رواں ہفتے قحط کے خطرے سے دوچار سات ممالک یمن، افغانستان، جنوبی سوڈان، ایتھوپیا، نائیجیریا، کانگو اور برکینا فاسو کے لیے 100 ملین ڈالر کا ہنگامی فنڈ جاری کیا۔

لیکن ورلڈ فوڈ پروگرام کے سربراہ ڈیوڈ بیسلی کا کہنا ہے کہ اربوں ڈالر کی نئی امداد کی ضرورت ہے۔

متعدد ممالک میں کرونا (کورونا) وائرس کے وبائی مرض نے جاری جنگوں کے اثرات پر ایک نیا بوجھ ڈال دیا ہے، جس سے زیادہ سے زیادہ افراد غربت کی طرف چلے گئے ہیں اور وہ خوراک حاصل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی امداد میں بھی کمی واقع ہوئی ہے، جس سے وہ حفاظتی جال کمزور ہوا ہے جو لوگوں کو زندہ رکھتا ہے۔

افغانستان کے دارالحکومت کابل کے رہائشی زمارے حکیمی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دن میں صرف ایک وقت کا کھانا دے سکتے ہیں، جو کہ عام طور پر سخت کالی روٹی ہوتی ہے جسے چائے میں ڈبو کر کھایا جاتا ہے۔ انہوں نے کرونا وائرس کا شکار ہونے کے بعد ٹیکسی ڈرائیور کی حیثیت سے اپنا کام ختم کردیا اور اب سڑک پر مزدوری کے کام کا انتظار کرتے ہیں جو شاذ و نادر ہی آتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جب بچے شکوہ کرتےہیں تو میں ان کو کہتا ہوں کہ 'صبر کریں، شاید کسی دن ہمیں کچھ بہتر مل جائے۔'

جنوبی سوڈان بھی قحط کے شکار کسی بھی دوسرے ملک سے قریب تر ہے، کیونکہ پانچ سالوں کی خانہ جنگی کی وجہ سے یہاں ایک کے بعد ایک بحران آیا ہے۔ اس سال کے شروع میں اقوام متحدہ نے اندازہ لگایا تھا کہ جونگلی ریاست کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ قحط سالی کے دہانے پر پہنچ جائے گا۔

اب سیلاب کی وجہ سے دنیا کے بہت سے حصوں سے کٹ جانے والے جنوبی سوڈان کے لوگوں کے لیے کھانے پینے کی اشیا کی بھی قلت ہوچکی ہے۔

کیئر امداد گروپ کے کنٹری ڈائریکٹر روزالند کروتھیر نے بذریعہ ای میل اے پی کو بتایا: 'تنازعات، معاشی بحران اور بار بار آنے والے سیلاب کے ساتھ ساتھ کرونا وائرس کے بالواسطہ اثرات نے ایک 'مکمل طوفان' پیدا کردیا ہے جبکہ سیلاب اور تشدد کی وجہ سے بڑے پیمانے پر لوگوں کے بے گھر ہونے، فصلوں کی کم پیداوار اور مویشیوں کا نقصان ہوا ہے۔'

ورلڈ فود پروگرام کے بیسلے نے گذشتہ ہفتے سلامتی کونسل کو متنبہ کیا تھا کہ 'یمن تباہی کے دہانے پر ہے۔'

سالوں سے یمن دنیا کے بدترین غذائی بحران کا مرکز رہا ہے، جس کی ایک بڑی وجہ حوثی باغیوں کی جانب سے تباہ کن خانہ جنگی ہے، جنہوں نے 2014 میں شمالی اور دارالحکومت صنعا کا اقتدار سنبھال لیا تھا جبکہ سعودی قیادت میں ایک فوجی اتحاد نے یمن حکومت کی حمایت کی تھی۔

بین الاقوامی امداد کی مدد سے دو سال قبل یمن میں قحط سالی ختم ہوگئی تھی لیکن اس سال یہ خطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔ بڑھتے ہوئے تشدد اور کرنسی کی گراوٹ کی وجہ سے خوراک لوگوں کی دسترس سے باہر ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغانستان میں بھی یمن کی طرح، جنگ کی وجہ سے معذوری، وبائی امراض، بے روزگاری اور کھانے کی قیمتوں میں اضافے کا سامنا ہے۔

رواں سال سینکڑوں کی تعداد میں افغان کارکن کرونا وائرس پھیلنے کے باعث ایران اور پاکستان سے واپس آئے تھے، جس سے لاکھوں ڈالر کی ترسیلات زر رک گئیں، جو افغانستان میں لوگوں کی ایک اہم ذریعہ آمدنی ہے۔

کابل میں بازاروں میں کھانے پینے کی اشیا کا ڈھیر ہے لیکن دکانوں کے مالکان کا کہنا ہے کہ بہت کم گاہک ہی انہیں خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔

کابل کے قریب پہاڑوں میں بگرامی کیمپ میں، گل مکئی اپنی مٹی کی اینٹوں سے بنے گھر کے پاس بیٹھی ہیں۔ حالیہ برف میں چھت کے گرنے کے بعد انہوں نے پانی اور کیچڑ باہر نکالتے ہوئے رات گزاری تھی۔ اس سال جلد برفباری ہونے کے ساتھ ہی درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے چلا گیا ہے۔

ان کے 10 برس یا اس سے کم عمر کے 12 بچے ان کے ساتھ سخت سردی میں کانپتے رہے۔

سات ماہ قبل افغان فوج اور طالبان کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں شوہر کی ہلاکت کے بعد گل مکئی جنوبی صوبہ ہلمند میں واقع اپنے گھر سے فرار ہوگئی تھیں، جس کے بعد وہ بھیک مانگ کر اپنے بچوں کے لیے ایک وقت کے کھانے کا بندوبست کرتی ہیں، جو چاولوں یا سخت روٹی پر مشتمل ہوتا ہےت جبکہ وہ خود ہر دوسرے روز کھانا کھاتی ہیں۔

انہوں نے کہا: 'سردیوں میں موسم زیادہ سرد ہوگا، اگر مجھے مدد نہیں ملی تو میرے بچے بیمار ہو سکتے ہیں، یا خدا نہ کرے کہ میں ان میں سے کسی سے بھی محروم ہوجاؤں۔ ہماری حالت خراب ہے۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا