’افغان خواتین وہ پہنتی ہیں جس کا اللہ نے انہیں حکم دیا ہے‘

طالبان نے خواتین کے حصولِ تعلیم کے لیے برقعہ پہننے کو لازمی قرار دیا تھا جس کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

(اے ایف پی فائل)

افغانستان کا کنٹرول طالبان کے ہاتھوں میں جانے کے بعد سے جو موضوعات سب سے زیادہ زیرِ بحث ہیں ان میں سے ایک خواتین کے حقوق ہیں۔

 کبھی خواتین کی تعلیم، کبھی معاشی آزادی تو کبھی اظہارِ رائے کا حق، سوشل میڈٰیا پلیٹ فارمز پر کئی لوگ اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے نظر آئے۔

 خواتین کے متعلق ایک اور موضوع جو زیرِ بحث رہا وہ خواتین کا لباس تھا۔

طالبان نے خواتین کے حصولِ تعلیم کے لیے برقعہ پہننے کو لازمی قرار دیا تھا جس کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

افغانستان کی خواتین نے بھی ٹوئٹر کا سہارا لیتے ہوئے لباس کے انتخاب سے متعلق اپنی آواز دنیا بھر تک پہنچانے کے لیےٹرینڈ#DontTouchMyClothes چلایا۔ جس میں انہوں نے روایتی لباس زیب تن کیے تصاویر شیئر کیں اورساتھ تحریر کیا کہ لباس کا انتخاب ہمارا حق ہے اور کسی کو بھی اسے تبدیل نہیں کرنا چاہیے۔

کچھ خواتین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’رنگ برنگے لباس ہمارا کلچر ہے نہ کہ سیاہ برقعہ۔‘

بہار جلال نامی ٹوئٹر صارف نے تحریر کیا: ’یہ میری نوجوانی کی تصویر ہے جس میں میں نے افغانستان کا روایتی لباس زیب تن کر رکھا ہے۔ جو لوگ ہمیں مٹانا چاہتے ہیں انہیں اپنی ثقافت کا نشان مٹانے نہیں دیں گے۔‘

شفیع کریمی نے اپنی اہلیہ کے ساتھ تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’میری اہلیہ نے روایتی افغان لباس پہن رکھا ہے۔ یہ افغان کلچر ہے اور افغان خواتین ایسا لباس زیب تن کرتی ہیں۔

ٹوئٹر صارف دیبا کا کہنا تھا کہ: ’بنیادی طور پر مسئلہ لباس کے انتخاب کے حق کا ہے جو کہ افغان خواتین سے طاقت کے زور پر چھینا جا رہا ہے اور سیاہ نقاب ان پر مسلط کیا جا رہا ہے۔‘

انہوں نے اپنی تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا ’یہ روایتی افغان لباس ہے، نقاب نہیں۔‘

جہاں کئی ٹوئٹر صارفین اس ٹرینڈ کے حق میں بول رہے تھے وہیں کئی افراد اس کی مخالفت کرتے بھی دکھائی دیے۔

محسن اعوان نامی صارف نے تحریر کیا کہ ’یہ تمام خواتین ماڈلز اور اداکارائیں ہیں جو افغان خواتین کی ترجمان نہیں۔ یہ اپنا کام کر رہی ہیں نہ کہ افغان خواتین کے حقوق کی ترجمانی۔‘

ٹوئٹر صارف ماہی نے برقعے میں ملبوس خواتین کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا: ’یہ افغان خواتین کا روایتی لباس ہے۔ افغان خواتین وہ پہنتی ہیں جس کا اللہ نے انہیں حکم دیا ہے۔‘

ادیب یوسفزئی نے میٹ گالا میں پہنے کم کارڈیشین کے لباس اور افغان طالبہ کے سیاہ برقعے کا موازنہ کرتے ہوئے تحریر کیا ’دو تصاویر، دو مختلف نظریات۔ دونوں تصاویر ایک سی ہیں مگر دونوں مختلف تظریات کی ’ترجمانی‘ کرتی ہیں۔

’پہلی تصویر میں کم کارڈیشین میٹ گالا میں شریک ہیں اور یہ ’فیشن‘ ہے جب کہ دوسری تصویر کابل کی ہے جہاں ’شناخت مٹانے کی کوشش‘ کی جا رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹرینڈنگ