شمال مشرقی افغانستان کے صوبہ بدخشاں کے علاقے خاش میں پوست کے کاشت کاروں اور اس فصل کو تلف کرنے کے لیے بھیجے گئے طالبان کے درمیان پرتشدد جھڑپیں ہوئی ہیں۔
انڈپینٹ فارسی نے مقامی ذرائع کے حوالے سے ان جھڑپوں میں 15 شہریوں کے مارے جانے اور 50 سے زائد کے زخمی ہونے کی اطلاع دی ہے۔
بدخشاں کے گورنر مولوی محمد ایوب خالد نے بی بی سی کو جانی نقصان کی درست تعداد بتائے بغیر اعتراف کیا کہ اس واقعے میں کچھ لوگ جان کھو بیٹھے جبکہ چند زخمی بھی ہوئے ہیں۔
واقعے کے دو عینی شاہدین نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک خاتون سمیت پانچ افراد مارے گئے اور متعدد زخمی ہوئے۔ بدخشاں کے دارالحکومت فیض آباد کے ایک ڈاکٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ متاثرین میں سے ایک کی لاش کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب درجنوں کسانوں نے طالبان کو پوست کی فصل کو تباہ کرنے سے روکنے کے لیے احتجاج شروع کیا۔ علاقے خاش کے ایک ذریعے نے انڈیپینڈنٹ فارسی کو بتایا کہ کسانوں کی احتجاجی ریلی کے خلاف طالبان کی کارروائی سے عوام میں غم و غصہ پھیل گیا، جس کے بعد خواتین اور مردوں سمیت سینکڑوں افراد نے طالبان فورسز پر پتھروں اور لاٹھیوں سے حملہ کیا۔
— Afghan Analyst (@AfghanAnalyst2) July 1, 2025
The Taliban governor of Badakhshan, Qari Mohammad Ayub Khalid, confirmed to @bbcpashto that clashes had occurred between protesters and Taliban… pic.twitter.com/kVb5B1ilsG
پیر کی سہ پہر تک طالبان کی فائرنگ میں چار شہریوں کی ہلاکت اور 13 کے زخمی ہونے کی تصدیق کی گئی تھی لیکن منگل کو لڑائی جاری رہنے سے ہلاکتوں کی تعداد 15 اور زخمیوں کی تعداد 50 سے زائد ہو گئی۔
مرنے والوں میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔
خاش شہر میں مظاہرین نے پیر کی سہ پہر بدخشاں کے صدر مقام فیض آباد شہر اور شہر کے درمیان سڑکوں کو بند کر دیا، طالبان کی کمک کو علاقے میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے پتھر پھینک کر اور سڑک کے ایک حصے کو تباہ کر دیا۔ اس کے نتیجے میں طالبان کمانڈوز کو منگل کو کابل اور مزار شریف سے کم از کم تین ہیلی کاپٹروں میں خاش شہر روانہ کیا گیا۔
گذشتہ تین سالوں کے دوران، کسانوں اور طالبان کے درمیان بدخشاں کے مختلف اضلاع میں بار بار جھڑپیں ہوئیں۔ یہ جھڑپیں اب تک کئی کسانوں کی جانیں لے چکی ہیں۔
نومبر 2024 میں، پوست کے کھیتوں کو تباہ کرنے کی طالبان کی کوششوں کے خلاف بدخشاں میں کسانوں کے بڑھتے ہوئے مظاہروں کے بعد، طالبان رہنما ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے ملا جمعہ خان فتح کو، گروپ کے سینیئر کمانڈروں میں سے ایک کو خصوصی صوبائی یونٹ کا کمانڈر مقرر کیا۔
جمعہ خان نے لوگوں کو خبردار کیا کہ اگر انہوں نے منشیات کی کاشت اور پیداوار کی کوشش کی تو انہیں سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس خطرے کے باوجود، کسانوں نے اس موسم بہار میں بدخشاں کے کئی اضلاع میں افیون کی کاشت کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نومبر 2024 میں شائع ہونے والی اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق افغانستان میں افیون کی کاشت میں 19 فیصد اضافہ ہوا ہے اور طالبان کے دور حکومت میں منشیات کی کاشت، سمگلنگ اور استعمال پر پابندی کے باوجود کسانوں نے اس سال 12,800 ہیکٹر افغان زمین پر افیون کی کاشت کی تھی۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پوست کے کھیتوں اور منشیات کی پیداوار کا جغرافیہ جنوب سے افغانستان کے شمال اور شمال مشرق کی طرف منتقل ہو گیا ہے، جہاں سب سے زیادہ رقبہ بدخشاں صوبے میں زیر کاشت ہے۔
بدخشاں شمال مشرقی افغانستان میں واقع ہے اور اس کی سرحد تاجکستان سے ملتی ہے۔ یہاں کی آبادی کی اکثریت تاجک ہے۔
طالبان کے ترجمان نے خاش ضلع میں ہونے والی جھڑپوں کے بارے میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور مقامی صحافیوں کو جائے وقوعہ تک پہنچنے سے روک دیا ہے۔
ضلع بہارک کے کچھ عینی شاہدین نے بھی بی بی سی کو تصدیق کی کہ طالبان کے خصوصی دستے سات رینجرز، ایک ایمبولینس اور تین ہموی بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ بہارک کے راستے آج خاش ضلع میں داخل ہوئے۔
گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مظاہرین نے بہارک خاش اور فیض آباد خاش سڑکوں کو بلاک کر رکھا ہے۔ پہلے بتایا گیا تھا کہ خاش کے ضلعی گورنر نے ضلعی مرکز چھوڑ دیا ہے، لیکن بدخشاں کے گورنر کا دعویٰ ہے کہ حالات قابو میں ہیں اور ضلعی گورنر اپنی جگہ پر ہیں۔
مولوی محمد ایوب خالد نے ان کا کہنا تھا کہ چونکہ طالبان کے پاس علاقے میں مظاہروں پر قابو پانے کے لیے ضروری سامان نہیں تھا، اس لیے انہوں نے غلطی سے فائرنگ کی۔
بدخشاں میں طالبان کے گورنر کے مطابق افیون پوست کے خاتمے کے لیے جاری مہمات کے باوجود بدخشاں کے بعض علاقوں سے پوست کی کاشت ابھی تک مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکی ہے۔
خاش بدخشاں کے ان اضلاع میں سے ایک ہے جہاں چرس اور افیون کی کاشت ہوتی ہے۔