جرمنی میں ایک سوشل میڈیا صارف نے ریڈ کراس کو اپنے پرانے جوتے عطیہ کیے لیکن ساتھ ہی ان میں ایک ایئر ٹیگ بھی چھپا دیا اور وہ ٹریک کرتے رہے کہ یہ جوتے سفر کرتے ہوئے کس ملک پہنچے اور کیسے فروخت ہوئے۔
عطیہ کردہ جوتوں کو فروخت کرنے پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے اور ریڈکراس کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔
جرمن سوشل میڈیا انفلوئنسر موئی ہا نے اپنے پرانے مگر قابل استعمال جوتے باویریا ریڈ کراس کے ایک عطیہ کنٹینر میں ڈالے، لیکن ساتھ ہی ان کے اندر ایپل کا ایک ایئر ٹیگ چھپا دیا۔
اس ایئر ٹیگ کے ذریعے جوتوں کے سفر کا ریکارڈ رکھا گیا، جس کی ویڈیو موئی ہا نے ٹک ٹاک پر پوسٹ کر دی۔
انفلوئنسر کے مطابق یہ جوتے آسٹریا، سلووینیا اور کروشیا سے ہوتے ہوئے بالآخر بوسنیا کے ایک سیکنڈ ہینڈ سٹور میں جا پہنچے جہاں انہیں فروخت کے لیے رکھا گیا تھا۔
انفلوئنسر خود بوسنیا گئے اور وہاں اپنے ہی جوتے خریدے۔ جب انہوں نے سٹور انتظامیہ سے سوال کیا تو انہیں بتایا گیا کہ یہ ’عطیہ کردہ‘ جوتے نہیں بلکہ بطور تجارتی سامان حاصل کیے گئے ہیں۔
ویڈیو وائرل ہونے کے بعد عوامی سطح پر ریڈ کراس کی پالیسیوں پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
سوشل میڈیا صارفین نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہ عطیات مقامی ضرورت مندوں کی مدد کے لیے دیتے ہیں، نہ کہ انہیں دوسرے ممالک میں فروخت کیا جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تنقید کے جواب میں باویریا ریڈ کراس نے بھی ٹک ٹاک پر اپنے وضاحتی بیان میں بتایا کہ عطیہ کیے گئے تمام کپڑے اور جوتے براہ راست ضرورت مندوں کو نہیں دیے جاتے بلکہ ان میں سے ایک بڑا حصہ فروخت یا ری سائیکل کیا جاتا ہے تاکہ حاصل شدہ آمدن فلاحی منصوبوں پر خرچ کی جا سکے۔
ریڈ کراس کے مطابق وہ ہر سال 70 سے 80 ہزار ٹن پرانے کپڑے اور جوتے جمع کرتے ہیں، جن میں سے صرف نصف ہی قابل استعمال ہوتے ہیں اور ان میں سے بھی صرف 10 فیصد براہ راست مستحقین کو دیے جاتے ہیں۔
باقی کپڑے اور سامان فروخت کر کے ان سے حاصل ہونے والی رقم سے فوڈ بینک، بے گھر افراد کی مدد اور بزرگوں کے لیے منصوبے چلائے جاتے ہیں۔
اگرچہ انفلوئنسر کی اصل ویڈیو اب ٹک ٹاک سے ہٹا دی گئی ہے۔ تاہم انہوں نے ایک اور ویڈیو میں ریڈ کراس کی وضاحت شامل کرتے ہوئے اس معاملے پر بحث کو متوازن انداز میں پیش کیا۔
یہ معاملہ نہ صرف عطیات کی شفافیت پر ایک اہم سوال بن گیا ہے بلکہ اس نے عالمی سطح پر فلاحی اداروں کے طرزِ عمل پر بھی نئی بحث چھیڑ دی ہے۔