پیپلز پارٹی 16 برسوں سے سندھ پر قابض ہے، ایک دن بارش ہو کراچی وینس بن جاتا ہے۔ پختونخوا میں 12 سال سے تحریک انصاف برسراقتدار ہے، کہاں گیا وہ بلین ٹری سونامی، سیلابوں نے تباہی مچا دی ہے لیکن صوبائی حکومت ٹرانسفر پوسٹنگ پر پیسے بٹورنے میں مصروف ہے۔
مریم نواز کی حکومت صرف ٹک ٹاک پر نظر آتی ہے پنڈی شہر تک آدھا ڈوب جاتا ہے۔ گذشتہ ایک ہفتے میں ہونے والی بارشوں اور سیلابوں کے بعد یہی جملے تقریباً ہر صوبائی حکومت کے خلاف ٹرینڈ کرتے رہے۔
ایک حقیقت تو ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں، سب نکمے ہیں، سب نے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نہ صرف آنکھیں چرائیں بلکہ اس تباہی کی وجوہات کو صرف نظر کرنے میں بھی سب مجرم ہیں۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ یہ مسلئہ سیاسی نہیں اجتماعی ہے، یہ پاکستان کی بقا کا مسئلہ ہے، پیپلز پارٹی، ن لیگ یا تحریک انصاف کے کارکنان کا ایک دوسرے پر پوائنٹ سکورنگ کے میدان والا کھیل نہیں۔
26 جون سے ملک بھر میں جاری بارشوں کی وجہ سے اب تک تقریبا آٹھ سو افراد لقمہ اجل بن چکے۔ ان ہلاکتوں میں 62 فیصد وہاں ہوئیں جہاں گذشتہ دو سے تین سالوں میں پہاڑوں کو ننگا کرنے میں (درختوں کے بے دریغ کٹائی) کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔
بات ہو رہی ہے خیبر پختونخوا کی جہاں کے معتبر صحافی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ڈی فار سٹیشن یا جنگلات کی کٹائی باقاعدہ حکومت کی سرپرستی میں ہو رہی ہے، دو سے تین وزرا ٹمبر مافیا کے فرنٹ مین ہیں۔
مالاکنڈ ڈویژن جہاں پتھروں کے سیلاب نے سب سے زیادہ تباہی پھیری خصوصا شانگلہ اور بونیر میں، وہاں کے جنگلات کے ساتھ جو ظلم چند برسوں میں ہوا یا ہو رہا ہے وہ ناقابل معافی ہے۔
پنجاب کے کئی دیہات زیرِ آب، ایک لاکھ افراد محفوظ مقامات پر منتقل pic.twitter.com/5t8IBMmOGr
— Independent Urdu (@indyurdu) August 25, 2025
گذشتہ دنوں جب ایک ہی خاندان کے 18 افراد کئی گھنٹے ریسکیو کا انتظار کرنے بعد دریائے سوات کی بےرحم موجوں کی نظر ہوئے تو کالم میں ایک جملہ بے ساختہ تحریر ہوا کہ دریائے سوات پختونخوا کے لوگوں کی تحریک انصاف کی حکومت سے وابستہ امیدیں بھی بہا کر لے گیا۔
کوشش یہ ہوتی ہے کہ ایسے الفاظ استعمال کرنے سے گریز کیا جائے لیکن جو اس صوبے کے ساتھ ہو رہا ہے اس میں کہنے دیجیے کہ موجودہ مون سون نے تحریک انصاف کی کارکردگی کو بالکل اسی طرح ننگا کر دیا ہے جس طرح سے مالاکنڈ کی پہاڑیوں کو ننگا کرنے کا سلسلہ کئی برس سے جاری ہے۔
اب بات کریں پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور سب سے زیادہ ناقص منصوبہ بندی کا شکار شہر کراچی کی تو وہ چند گھنٹوں کی بارش کے بعد واقعی وینس بن جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک جملہ نظر سے گزرا جس نے کراچی کے مسائل کے سمندر کو کوزے میں بند کر دیا۔
’کراچی میں چند گھنٹوں کی بارش کے بعد ہر طرف پانی ہی پانی ہوتا ہے، بس صرف پینے کے لیے نہیں۔‘
اب اس شہر تو توڑ کر دوبارہ بنانا تو کوئی آپشن نہیں۔ صرف نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنا کر ہی معاملات کسی حد تک سنبھالے جا سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو کئی دہائیاں پرانے مسائل کا ذمہ دار تو قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن 15 سال سے زیادہ حکمرانی کے بعد اب پارٹی کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کراچی کو گندے پانی کے وینس سے دوبارہ روشنیوں کے شہر کی طرف کے سفر کا آغاز کرنا ہو گا۔
پختونخوا میں پی ٹی آئی اگر تیزی سے ہونے والی جنگلات کی کٹائی رکوانے کی مجرم ہے تو پیپلز پارٹی سمندر کی ہزاروں ایکڑ زمین ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی نظر کرنے کی مجرم۔ کچھ یہی معمالات پنجاب اور وفاق کے بھی ہیں۔ صرف اسلام آباد میں جو ظلم ای ڈی اے کے ناک کے نیچے مارگلہ کی پہاڑیوں کے ساتھ ہو رہا ہے وہ پختونخوا میں درختوں کے ساتھ ہونے والے ظلم سے کم نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مارگلہ کی پہاڑیوں کو کاٹ کاٹ کر مکان اور سوسائٹیاں بنائی جا رہی ہیں۔ ایک طرف سے سلسلہ شاہ اللہ دتہ اور ڈی 12 سے شروع ہو کر تیزی سے آگے کی طرف بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف یہ سلسلہ اسلام آباد سے شروع ہو کر مری تک پہنچ چکا ہے۔ دائیں بائیں صرف ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہی نظر آئیں گی آپ کو۔
ایم ٹو اسلام آباد سے لاہور کبھی جانا ہوا تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ زرعی زمینیں اتنی تیزی سے ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں تبدیل ہو رہی ہیں جتنی تیزی سے کوئی انسان دلدل میں دھنستا جاتا ہے۔ یہاں پاکستان کو دلدل میں اسی تیزی سے دھنسایا جا رہا ہے۔ لیکن پوچھے گا کیوں کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں!
موجودہ مون سون نے پاکستان اور اس خطے میں نہ صرف ماحولیاتی تبدیلیاں اور اس کے اثرات مزید واضح کر دیے ہیں بلکہ پاکستان کے قدرتی آفات سے نمٹنے کے نظام کو بھی ایک دفعہ پھر بےنقاب کیا ہے۔
2022 میں ہولناک سیلاب سے پاکستان کو 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، جی ڈی پی میں چار فیصد کمی ہوئی اور 1700 سے زائد قیمتی جانوں کا نقصان ہوا۔ عالمی ادارے پاکستان کو متنبہ بھی کرتے رہے کہ اگر پاکستان نے اس حوالے سے سنجیدہ اور عملی اقدامات نہیں اٹھائے تو معاملہ مزید سنگین ہو گا جو کہ اب ہر چند مہینے بعد ثابت ہو رہا ہے۔
صرف تین برس آنے والی تباہی سے بحیثیت قوم بہت کچھ سیکھا اور ان میں سر فہرست یہ کہ عین دریا کے بیچ بنائے گئے 20 20 منزلہ ہوٹلز جب سیلاب میں بہہ جائیں تو انہیں چھ مہینے میں دوبارہ اسی جگہ پر پہلے سے زیادہ شاندار تعمیر اور بیس کی بجائے تیس منزلہ کیسے تعمیر کیا جائے۔
قارئین میں سے کچھ کے لیے شاید یہ ناقابل یقین ہو لیکن سوات میں ایسا ہی ہوا ہے، دو سو فٹ تک دریا کی حدود میں تعمیرات پر پابندی ہے لیکن مینگورہ سے کالام تک آپ کو کئی سو ہوٹلز دریا کنارے نظر آئیں گے کچھ تو دریا کے اوپر ہی بنائے گئے ہیں۔ ان میں ایسے ہوٹل بھی ہیں جو تین دفعہ سیلابی ریلے میں بہہ کر چوتھی دفعہ بہنے کے لیے پھر تیار ہو چکے ہیں۔
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو ماحولیاتی تبدییلی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں اور پاکستان کا اس میں عمل دخل زیادہ نہیں لیکن پاکستان میں جنگلات کی بےدریغ کٹائی سے بھی ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔
پنجاب: شدید بارشوں سے کئی دیہات زیر آب، متاثرین کو کشتیوں سے محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا سلسلہ جاری pic.twitter.com/1nUesr5fMN
— Independent Urdu (@indyurdu) August 22, 2025
پاکستان کے کل رقبے کے 4.8 فی صد حصے پر جنگلات ہیں اور بدقسمتی سے ورلڈ وائلڈ لائف فورم کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ایشیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ درخت کاٹے جا رہے ہیں۔’سسٹینیبل کنزرویشن نیٹ ورک‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں برس صرف چترال میں 14 لاکھ کیوبک فٹ لکڑی پکڑی گئی جبکہ بٹگرام، ہزارہ میں ساڑھے چھ لاکھ کیوبک۔
اب یہ تو وہ اعداد و شمار ہیں جو لکڑی پکڑی گئی، جو نہیں پکڑی گئی اس کا حساب صرف کبھی سرسبز اور حسین لیکن اب ننگی پہاڑیوں سے لگایا جا سکتا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے سخت ایکشن اور حکمت عملی بنانے کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن یہ کافی نہیں ہو گا۔ دریاؤں سے ریت/ کرش نکالنے اور جنگلات کی کٹائی کو سخت جرم قرار دیتے ہوئے کم از کم دس سال قید کی سزا مقرر ہونی چاہیے۔ اور سب سے بڑھ کر پورے ملک میں نئی ہاؤسنگ سوسائٹیوں پر فورا پابندی لگا دینی چاہیے بالکل اسی طرح جس طرح گیس کے نئے کنکشنز پر پابندی لگائی گئی۔
حل یہی ہے ورنہ بارشوں آندھیوں سیلابوں، ہیٹ ویو (شدید گرمی کی لہر) اور پتھروں کے مزید سیلابوں کی تیاری پکڑیں جس میں خدانخواستہ گاؤں نہیں بلکہ شہر کے شہر اجڑ سکتے ہیں۔
پھر دہراتا چلوں کہ موسمیاتی تبدیلی سیاسی نہیں اجتماعی مسئلہ ہے اور دنیا کا کوئی ملک آپ کو بچانے یا آپ کی مدد کرنے نہیں آئے گا بلکہ آپ نے اپنے آپ کو خود بچانا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔