جدید دور میں سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی

اس قسم کے فیصلوں سے پہلے سرکاری ملازمین کو سوشل میڈیا کے استعمال پر تربیت تو دی جائے۔ ان کو بتایا تو جائے کہ کب، کیسے اور کیوں سوشل میڈیا کا استعمال کرنا ہے۔

یکم اکتوبر، 2019  کو لی گئی اس تصویر میں سماجی رابطوں کی مختلف ویب سائٹس کے لوگو دکھائی دے رہے ہیں جن کے استعمال پر پاکستان کے سرکاری ملازمین پر پابندی ہے ( اے ایف پی فائل فوٹو)

پانچ اگست، 2019 میں جب بھارت نے اپنے زیر انتظام کشمیر کی نیم خود مختاری ختم کی اور خطے کو دو الگ الگ مراکز کے زیر انتظام علاقہ قرار دیا تو اسلام آباد میں اس حوالے سے منعقد کیے جانے والے سیمینار پر جانے کا اتفاق ہوا۔

اس سیمینار میں بھارت کے آر ایس ایس کے نظریے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور مودی سرکار کے اس یک طرفہ فیصلے کی مذمت کی گئی اور عالمی برادری سے بھارت کے اس اقدام کا نوٹس لینے کی استدعا کی گئی وہیں پر وفاقی وزیر اور فائر برانڈ سپیکر شیریں مزاری نے دفتر خارجہ کو آڑے ہاتھ لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس جدید دور میں جب دنیا بھر کا سفارتی عملہ انٹرنیٹ اور مختلف پلیٹ فارمز کو اپنے مقاصد کے لیے بھرپور استعمال کرتا ہے لیکن پاکستانی سفارتی عملہ ایسا نہیں کر رہا۔

دنیا بھر کا سفارتی عملہ اپنا موقف دنیا بھر میں پھیلانے اور اپنا بیانیہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتا ہے۔

دو سال گزرنے کے بعد معلوم نہیں کہ شیریں مزاری صاحبہ کے کلمات کو کتنی اہمیت دی گئی لیکن حکومت نے سرکاری ملازمین پر فیس بک، ٹوئٹر، واٹس ایپ اور انسٹاگرام استعمال پر پابندی عائد کی ہے۔

ویسے شاید حکومت کو اب تک ٹیلی گرام اور سگنل ایپس کا نہیں معلوم کیونکہ ’حساس‘ معلومات کے تبادلے کے لیے آج کل واٹس ایپ نہیں ٹیلی گرام یا سگنل کا استعمال کیا جاتا ہے۔

حکومت کے مطابق سرکاری ملازمین کی جانب سے حساس سرکاری معلومات اور دستاویزات غیر متعلقہ افراد کو، جس کا مطلب میرے خیال میں میڈیا ہے، کو فراہم کرنے سے روکنے کے لیے تمام سرکاری ملازمین پر سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے۔

لمبے چوڑے قونین کا حوالہ دیا گیا اور کہا گیا ہے کہ یہ قوانین سرکاری ملازمین کو کسی بھی بیان بازی یا رائے دینے سے روکتے ہیں، ملازمین کے بیان یا رائے سے حکومت کی بدنامی ہو سکتی ہے، سرکاری ملازم کو کسی دوسرے سرکاری ملازم یا کسی شخص یا میڈیا سے سرکاری معلومات یا دستاویز شیئر کرنے سے روکا گیا ہے۔

ساتھ ہی کہہ دیا گیا ہے کہ کسی ایک یا زائد ہدایات کی خلاف ورزی بددیانتی کے مترادف ہوگی اور تادیبی کارروائی کی جائے گی۔

تاہم حکومتی نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ سرکاری ملازمین کو سوشل میڈیا کے تعمیری اور مثبت استعمال سے نہیں روکا جا رہا ہے اور نہ ہی ان کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔

دوسری جانب برطانیہ نے اپنے سرکاری ملازمین کے لیے جو گائیڈ لائنز رائج کی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے اس دور میں مقامی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر کمیونیکیشن میں انقلاب لے آئی ہے اور سرکاری ملازمین کو اس سے ہونے والی تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے تاکہ وہ اس جدید دور میں موثر طریقے سے کام کر سکیں۔

برطانوی حکومت نے کسی بھی سرکاری ملازم پر سوشل میڈیا کے استعمال پر قدغن یا پابندی عائد نہیں کی بلکہ ان سب کو خبردار کیا کہ تمام سرکاری ملازمین سول سروس کوڈ کے پابند ہیں۔

برطانوی حکومت نے اپنے سرکاری ملازمین کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کے حوالے سے کیا گائیڈ لائنز دیں؟

چار تاکیدیں

  1. سول سروس کوڈ کا دھیان رکھتے ہوئے سوشل میڈیا کا استعمال کریں چاہے وہ سرکاری یا پھر ذاتی طور پر استعمال کیا جا رہا ہو۔
  2. اگر کوئی چیز پوسٹ کرتے ہوئے شک ہے کہ یہ پوسٹ قوانین کے مطابق ہے یا نہیں تو پوسٹ نہ کریں۔
  3. پوسٹ میں دی جانے والی معلومات کی درستگی کو یقینی بنائیں یعنی اگر کلاؤڈ برسٹ نہیں ہے تو کلاؤڈ برسٹ نہ لکھیں جب تک اس بات کی تصدیق نہ ہو جائے۔
  4. یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ جو بھی آپ پوسٹ کریں گے اس کو ہٹانا اور مستقل طور پر ختم کر دینا نہایت مشکل ہے۔

حساس معلومات کا تبادلہ اگر کیا جاتا ہے تو کارروائی ضرور کریں لیکن خدارا اس جدید دور میں معلومات اسی وقت تک معلومات رہتی ہیں جب اس کی ترسیل فوری ہو۔

فوری ترسیل میں سوشل میڈیا کا اہم کردار ہے اور اس پر پابندی لگا دینا معلومات کو روکنے کے مترادف ہے۔

اس قسم کے فیصلوں سے قبل سرکاری ملازمین کو سوشل میڈیا کے استعمال پر تربیت تو دی جائے۔ ان کو بتایا تو جائے کہ کب، کیسے، کیوں سوشل میڈیا کا استعمال کرنا ہے۔ سوشل میڈیا کے لیے کیسے لکھا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چند سال قبل وزارتوں کے انفارمیشن آفیسرز کو ’کرائسس کمیونیکیشن‘ کے حوالے سے لیکچر دینے کا موقع ملا۔

اس لیکچر میں ہنگامی صورتحال کے دوران میڈیا کو معلومات فراہم کرنے اور اس حوالے سے سوشل میڈیا کے استعمال کے بارے میں بتایا گیا۔

لیکچر کے بعد کئی انفارمیشن آفیسرز میرے پاس آئے اور کہا کہ لیکچر بہت اچھا بھی تھا اور معلوماتی بھی لیکن آپ نے یہ نہیں بتایا کہ اگر انفارمیشن آفیسر ہی سے خبر کو چھپایا جائے تو وہ کیا کریں۔

اگر سرکاری اکاؤنٹس ہی چلانے ہیں تو کم از کم ان اکاؤنٹس کو اتنا فعال کیا جائے کہ معلومات بروقت مل جائیں نہ کہ ایک آٹو میٹڈ پیغام جواب کی صورت میں بھیج دیا جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ