افغان فنکاروں کے لیے خصوصی کارڈ: محکمہ ثقافت خیبرپختونخوا

پاکستان آئے ہوئے افغان فنکاروں کو کرائے کے مکانات ملنے اور نقل و حرکت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے تاہم کلچر ڈیپارٹمنٹ پشاور میں فنکاروں کی تنظیم ’ہنری ٹولنہ‘ کی مدد سے افغان فنکاروں کا ڈیٹا اکٹھا کررہا ہے۔

تین دسمبر 2019 کو لی گئی اس تصویر میں ایک کارکن پشاور کے مضافات میں کام کی جگہ پر روایتی رباب موسیقی کا آلہ بنا رہا ہے (فائل تصویر: اے ایف پی)

محکمہ ثقافت خیبرپختونخوا کے ڈائریکٹر اجمل خان نے کہا ہے کہ افغانستان سے پاکستان منتقل ہونے والے فنکاروں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے اور محکمہ داخلہ سے اجازت ملنے کے بعد انہیں خصوصی کارڈ دیے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان سے سینکڑوں فنکار پاکستان سمیت دوسرے ممالک منتقل ہورہے ہیں۔

پاکستان آئے ہوئے افغان فنکاروں کو کرائے کے مکانات ملنے اور نقل و حرکت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے تاہم کلچر ڈیپارٹمنٹ پشاور میں فنکاروں کی تنظیم ’ہنری ٹولنہ‘ کی مدد سے افغان فنکاروں کا ڈیٹا اکٹھا کررہا ہے۔

اجمل خان کا کہنا ہے کہ افغان فنکاروں کی لسٹ مرتب کرنے کے بعد محکمہ داخلہ کو بھیجی جائے گی وہاں سے اجازت نامہ ملتے ہی کلچر ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے افغان فنکاروں کو خصوصی کارڈ ملنا شروع ہو جائیں گے۔

ڈائریکٹر کا مزید کہنا تھا کہ جس افغان فنکار کے پاس محکمہ ثقافت کا کارڈ ہوگا اُن کو پاکستان میں رہنے اور روزگار کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔

’کوشش ہے کہ افغان فنکاروں کو پاکستان میں اپنی سرگرمیاں بحال کرنے کے لئے آسانیاں اور اچھا ماحول فراہم کریں۔‘

اجمل خان نے افغان طالبان کی جانب سے آلات موسیقی نذر آتش کرنے اور فنکاروں کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا طالبان کے خوف کے باعث افغانستان کے مختلف شہروں سے فنکاروں اور گلو کاروں کی نقل مکانی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے

ہنری ٹولنہ

ہنری ٹولنہ خیبرپختونخوا کے فنکاروں اور گلوکاروں کی فلاح و بہبود کی ایک فعال تنظیم ہے جو پچھلے کئی سالوں سے فنکاروں کی حقوق کے لئے اہم کردار ادا کررہا ہے۔ ہنری ٹولنہ کے روح رواں اور مشہور پشتو گلوکار راشد احمد خان(موسیقی کے پی ایچ ڈی سکالر) نے اعداد و شمار بتاتے ہوئے کہا کہ پندرہ اگست 2021 کے بعد افغانستان سے لگ بھگ 100 سے بھی زائد فنکار پاکستان منتقل ہوچکے ہیں، یہاں آنے کے بعد افغان فنکاروں کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، مجبوری کے تحت ایک ہی کمرے میں دس دس بندے رہ رہے ہیں۔ ان کے پاس رہنے کے لیے جگہ اور کھانے کے لیے روٹی نہیں ہے اور باہر جاتے ہیں تو پولیس تنگ کرتی ہے تاہم ان تمام مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہنری ٹولنہ نے محکمہ ثقافت کو اقدامات اٹھانے کی اپیل کی ہے۔

راشد خان کا کہنا ہے کہ ہنری ٹولنہ نے افغان فنکاروں کی رجسٹریشن کا عمل تقریبا مکمل کرلیا ہے اور ان کی حتمی فہرست جلد محکمہ ثقافت کو بھیجی جائے گی۔ انہوں نے کہا ہم اُن تمام فنکاروں سے بھی رابطے میں ہیں جو اس وقت افغانستان میں پھنسے ہوئے ہیں، حالیہ واقعات جیسا کہ آلات موسیقی کو نذر آتش کرنے اور فنکاروں کو عوام کے سامنے ذلیل کرنے کے بعد کوئی بھی فنکار افغانستان میں رہنے کو تیار نہیں۔

’ہنری ٹولنہ حکومت پاکستان سے بھی اپیل کرتی ہے کہ افغان فنکاروں اور فیملیز کی زندگی بچانے کے لئے جلد سے جلد افغانستان سے فنکاروں کی انخلا میں مدد فراہم کریں۔‘

موت کو قریب سے دیکھا؛ شمس راحیل

شمس راحیل ایک اچھے گلوکار ہونے کے ساتھ ساتھ رباب بجانے اور بنانے کے ماہر ہیں۔ ان کا تعلق افغانستان کے جلال آباد شہر سے ہے۔

شمس راحیل نے طالبان کی حکومت کے ابتدائی پانچ دن روپوش رہنے کے بعد اپنے آبائی علاقے جلال آباد سے پاکستان کے ساتھ جنوبی سرحدی کراسنگ اسپن بولدک تک 15 گھنٹے کا سفر کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ گھر سے نکلتے وقت نہیں سوچا تھا کہ سرحد تک زندہ سلامت پہنچ جاؤں گا۔ طالبان کے خوف سے حلیہ تبدیل کرنا پڑا، داڑھی بڑھائی، سادہ کپڑے پہنے اور سر پر ٹوپی اور چادر رکھ کر منزل کی طرف روانہ ہوا۔

’مجھ سے میرا ہمسفر رباب اور میری گانوں کی ڈائری بھی پیچھے رہ گئی۔‘ (یہ میری زندگی کا سوال تھا، اسی لیے میں نے سب کچھ پیچھے چھوڑ دیا۔)۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے آنسو پونچھے اور کہا کہ یہ زندگی کے مشکل ترین لمحات میں سے ایک ہے، جب ایک آدمی اپنی اہل و عیال، اپنے بہن بھائیوں اور اپنے بچوں کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔

شمس راحیل کا کہنا ہے کہ اس نے پاکستان میں اپنے ابتدائی چار پانچ دن شدید ڈپریشن میں گزارے اور صرف روتے رہے۔ وہ کہتے ہیں ’جب میں سرحد پار کر کے یہاں آیا، تب بھی پہلے 10 یا 15 دن تک میرا دماغ یہی سوچتا رہا کہ یہ کیسے ہوا؟ یہ لوگ اتنے اچانک کیسے آئے اور آباد وطن کے نظام کو مکمل طور پر الٹ دیا۔ لیکن جو ہونا تھا وہ ہوگیا بس مجھے اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں کی فکر ہو رہی ہے، سمجھ نہیں آرہا کہ آگے کیا ہوگا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ موسیقی نے مجھے پہچان دی ہے اور اس کے ساتھ ہمارا رزق جڑا ہوا ہے۔ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ حالات جیسے بھی ہو موسیقی ہمارے ساتھ اور ہم موسیقی کے ساتھ جڑے رہیں گے۔

’میں خوش قسمت ہوں کہ وہاں سے زندہ نکلا، افغانستان میں اب بھی سینکڑوں فنکار ایسے ہیں جو وہاں سے نکلنا چاہتے ہیں لیکن خوف کی وجہ سے نہیں نکل پا رہے۔‘

شمس راحیل نے پاکستان حکومت سے اپیل کی ہے کہ افغانستان میں پھنسے تمام فنکاروں کو بحفاظت نکالنے میں ان کی مدد کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان