پاکستان میں نشے کے عادی 20 لاکھ افراد کوعلاج کی ضرورت: کلیم امام

وفاقی سیکریٹری نارکوٹکس کا کہنا تھا کہ اکثر بحالی مراکز نجی شعبے سے تعلق رکھتے ہیں، جبکہ صرف چار مراکز میں اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) کا عمل دخل ہے۔

وفاقی سکریٹری نارکوٹکس کنٹرول نے کمیٹی کو بتایا کہ اگرچہ ملک میں نشہ آور اشیا کا استعمال بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے، تاہم آئس اور کرسٹل کا استعمال بڑھ رہا ہے، اور اس سلسلے میں حکومتی سطح پر اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں (تصویر: پیکسلز)

وفاقی سکریٹری نارکوٹکس کنٹرول ڈاکٹر سید کلیم امام نے کہا ہے کہ پاکستان میں نشے کے عادی 20 لاکھ افراد کو علاج کی ضرورت ہے، جبکہ اس مقصد کے لیے بحالی مراکز کی تعداد بہت کم ہے۔

سینیٹر اعجاز احمد چوہدری کی صدارت میں ہونے والی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نارکوٹکس کنٹرول کی کارروائی کے دوران انہوں بتایا کہ پورے ملک میں نشے کے عادی افراد کی بحالی کے لیے تسلیم شدہ مراکز کی تعداد 135 ہے۔

ڈاکٹر کلیم امام کا کہنا تھا کہ ان مراکز میں سے محض چند ایک ہی حکومت کے زیر انتظام چلائے جا رہے ہیں۔

وفاقی سیکریٹری نارکوٹکس کا کہنا تھا کہ ایسے اکثر بحالی مراکز نجی شعبے سے تعلق رکھتے ہیں، جبکہ صرف چار مراکز میں اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) کا عمل دخل ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مزید تقریبا 70 مراکز ایسے بھی ہیں، جن کی قانون کے مطابق منظوری ہونا باقی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پرانے سروے کے مطابق پاکستان میں نشہ آور اشیا استعمال کرنے والوں کی تعداد 70 لاکھ ہے، نئی مردم شماری میں ایک کروڑ تک پہنچنے کا امکان ہے۔

اقوام متحدہ کے ڈرگ اینڈ کرائم آفس کے مطابق پاکستان میں 20 لاکھ افراد نشے کے عادی ہیں، اور یہ تعداد دنیا کے ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔

وفاقی سکریٹری نارکوٹکس کنٹرول نے کمیٹی کو بتایا کہ اگرچہ ملک میں نشہ آور اشیا کا استعمال بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے، تاہم آئس اور کرسٹل کا استعمال بڑھ رہا ہے، اور اس سلسلے میں حکومتی سطح پر اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں نشے کے عادی افراد کی بحالی کے لیے مزید مراکز قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر کلیم امام کا کہنا تھا کہ ملک میں موجود ایک سو سے زیادہ جیلوں میں ایسے مراکز قائم کیے جا سکتے ہیں، جبکہ ہر ضلعے میں نشے کے عادی افراد کی بحالی کے کم از کم ایک مرکز کا قیام لازمی قرار دیا جائے۔

ان کا مزید کہنا تھا: ’نشے کے عادی 21 ہزار افراد کی بحالی یا علاج ہو چکا ہے، لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ اب وہ کس حال میں ہیں، جبکہ ایسے لوگوں کا ریکارڈ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔‘

سینیٹر سیمی ایزدی نے ایک موقع پر کہا کہ خصوصاً تعلیمی اداروں میں نشے کا استعمال بڑھ گیا ہے، اور اس سلسلے میں مافیاز بن گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے سینیٹ میں یہ سوال سابق پاکستانی سفارت کار کی صاحبزادی نور مقدم کے قتل کے بعد اٹھایا، کیونکہ اس مقدمے میں بھی ایک بحالی مرکز کا ذکر موجود ہے۔

یاد رہے کہ نور مقدم کو گزشتہ سال جولائی میں اسلام آباد کے ایک گھر میں قتل کر دیا گیا گیا تھا، جہاں سے لاش کے ساتھ مرکزی ملزم ظاہر جعفر بھی گرفتار ہوئے تھے۔

اسی مقدمے میں تھیراپی ورکس نامی بحالی مرکز کے سربراہ اور ملازمین بھی ملزمان ہیں، جن پر مرکزی ملزم کو سہولت فراہم کرنے اور پولیس سے حقائق چھپانے کا الزام ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سینیٹر سیمی ایزدی نے مزید کہا کہ اے این ایف کو کم از کم دس ہزار افراد کی ضرورت ہے جبکہ ادارہ محض تین ہزار افرادی قوت کے ساتھ ملک کی خدمت کر رہا ہے۔

سینیٹر جام مہتاب حسین داہڑ نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان میں نشہ آور اشیا کے استعمال کا مسئلہ اتنا بڑا نہیں ہے جتنا اسے بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نجی شعبے میں قائم بحالی کے مراکز اور دوسرے ادارے نشے کے عادی افراد کی تعداد بڑھا چڑھا کر بتاتے ہیں، جبکہ ایسے 50 ہزار افراد کے نام ان کے پاس موجود نہیں ہیں۔

سندھ میں کچی شراب پینے سے 25 افراد کی ہلاکتوں پر سینیٹر سیف اللہ آبڑو کے سوال پر کمیٹی نے حکومت سندھ سے اس معاملے کی رپورٹ طلب کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس موقعے پر سینیٹر سیف اللہ آبڑو نے کہا:’مری میں 20 ہلاکتوں کا قومی میڈیا میں بڑی کوریج دی گئی، جبکہ اس کے چند روز بعد ہی سندھ میں 25 لوگ ہلاک ہوئے جس کا کہی ذکر نہیں تھا۔‘

سکریٹری نارکوٹکس ڈاکٹر کلیم امام نے کہا کہ شراب اے این ایف کے دائرہ کار میں نہیں آتی اور اس سلسلے میں صوبائی حکومت یا پولیس سے باز پرس ہونا چاہیے۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر نشہ آور اشیا کے ساتھ شراب پکڑی جائے تو اس صورت میں اے این ایف اس پر کارروائی کرتی ہے، بلکہ اس کا مقدمہ بھی عام عدالت میں دائر کیا جاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان