ایران کے خلاف ٹرمپ کا ’ثبوت‘ فریب پر مبنی ہے    

ایک حقیقی دنیا میں ایران اور امریکہ  کو ایک دوسرے کا اتحادی ہونا چاہیے تھا لیکن جوہری ڈیل سے نکلنے کے بعد واشنگٹن کی سمت کا تعین کرنا ممکن نہیں۔

خلیج عمان میں جمعرات کو دو بحری تیل بردار جہازوں پر مبینہ حملوں کے بعد خطے میں پہلے سے کشیدہ صورتحال مزید سنگین ہو گئی   (اے ایف پی)

امریکہ کے خبطی صدر نے گذشتہ 29 ماہ میں کسی بھی سچ پر یقین کرنے کو بہت مشکل بنا دیا ہے۔ وہ خلیج عمان میں تیل کے ٹینکروں پر ایران کے ملوث ہونے کے جتنے بھی ’ثبوت‘ دے دیں کوئی اس پر یقین نہیں کرے گا۔ یہ منظر اپنے آپ میں ایک جادوئی اثر رکھتا ہے۔

2017 میں ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب کی تصاویر کو یہ ثابت کرنے کے لیے ایڈیٹ کیا گیا تھا کہ واشنگٹن مال میں موجود لوگوں کی تعداد زیادہ دکھے۔ اور اب ان کی انتظامیہ ایک وڈیو کی مدد سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ خلیج عمان میں تیل کے ٹینکروں پر حملے میں ایران ملوث ہے ،جبکہ وڈیو میں  صاف صاف ایرانی اہلکاروں کو جاپانی بحری جہاز کے قریب سے بارودی سرنگ ہٹاتے دیکھا جا سکتا ہے۔

یہ کیا ثابت کرتا ہے؟ یہی کہ نالائق ایرانی اپنے ہدف کو ٹھیک سے نشانہ بھی نہیں بنا سکتے اس لیے وہ نہ پھٹنے والے بارودی سرنگ کو ہٹانے چلے گئے کیونکہ اس پر شاید ’میڈ ان ایران‘ لکھا ہو۔

کیونکہ ایسا نہ کر کے وہ پکڑے جاتے؟ لیکن پھر یہ بات سامنے آتی ہے کہ بحری جہاز کے عملے کے مطابق جہاز کو کسی اڑتی چیز سے نشانہ بنایا گیا  اور بارودی سرنگیں تو اڑ نہیں سکتیں۔ حملے کا شکار دوسرے جہاز کے عملے کو لگتا ہے وہ ٹارپیڈو سے نشانہ بنائے گئے ہیں۔ اور اس کی بنیاد پر واشنگٹن اپنے اتحادیوں کے ساتھ ایران کو ان حملوں اور اس سے قبل متحدہ عرب امارات میں کیے جانے والے حملوں پر ’فیصلہ کن‘ جواب دینے کے لیے ’اتفاق رائے‘ پیدا کرنے کی کوششکر رہا ہے۔

اور ہمارے پیارے وزیر خارجہ، جنہیں یہ یاد  ہے کہ کنزرویٹو پارٹی کا آیت اللہ بننے کے لیے انہیں پارٹی کے ایک لاکھ بیس ہزار ووٹرز کی اکثریت درکار ہے ،وہ بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس حملے کے پیچھے ایران ہی ہے۔ جیرمی ہنٹ، جو سپریم لیڈر بننے تک  حجت الاسلام کا درجہ ہی رکھیں گے،   کو بھی  واشنگٹن مال پر ٹرمپ کی حلف برداری کی ایڈیٹ کی گئیں تصاویر شاید حقیقت  ہی لگتی تھیں۔

ذاتی طور پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایرانی خلیج میں اپنی پرانے داو آزما رہے ہیں۔ 1988 میں ایران عراق جنگ کے بعد بھی کویتی ٹینکرز جو امریکی حفاظت میں محو سفر تھے وہ بھی باردوی سرنگوں کے خطرے کا سامنا کرتے رہے ہیں۔ اکثر اوقات تو امریکی جنگی جہاز بھی ان کی تیل کے ٹینکروں کی آڑ میں گزرتے تھے کہ وہ نشانہ نہ بن جائیں۔ ایک ایرانی جہاز کا عملہ پرانی بارودی سرنگیں صاف کرتے امریکیوں کے ہتھے لگ  بھی گیا تھا ۔ تحویل میں لینے کے بعد امریکہ کی جانب سے انہیں ’آزاد ملک‘ امریکہ میں سیاسی پناہ کی پیشکش کی گئی۔ لیکن ان تمام بے وقوفوں نے اس کو رد کر دیا۔

اگر حزب اللہ 2006 میں لبنانی ساحل پر ایرانی ساختہ سمندر سے سمندر میں نشانہ بنانے والے میزائل سے اسرائیلی جنگی جہاز کو کامیابی سے نشانہ بناسکتے ہیں، جو انہوں نے کیا اور  جس سے وہ جہاز تبا ہ اور عملے کے کئی اہلکار ہلاک بھی ہوئے،تو مجھے اس بارے میں قطعی کوئی شک نہیں کہ ایران نے سعودی عرب پر میزائل اور ڈرون حملوں کے لیے حوثیوں کو  کچھ نہیں سکھایا ہو گا۔

جس وقت سعودی  عرب اور متحدہ عرب امارات امریکی فراہم کردہ بم یمن میں حوثیوں کے سکولوں، ہسپتالوں اور شادیوں کی تقریبات پر گر رہے  ہیں تو یہ بات کسی حیرت کا باعث نہیں ہونی چاہیے کہ حوثی ایرانی اسلحہ سعودی ہوائی اڈوں پر حملوں میں استعمال  کر رہے ہیں۔ تھوڑی زیادہ تکنیکی مدد کے بعد شاید حوثی  بھی سعودی عرب اور امارات میں بھی سکولوں، ہسپتالوں اور شادی کی تقریبات کو نشانہ بنانے کی صلاحیت حاصل کر لیں۔

یہ سویز جیسا محسوس ہو رہا ہے۔ جب غصیلے انتھونی ایڈن نے فرانسیسی اور اسرائیلیوں کو 1956 کے نہر سویز کے تنازعے میں الجھایا تو آئزن ہاور نے ڈیلس کو لندن بھیجا تاکہ برطانوی وزیر اعظم کی حمایت حاصل کی جا سکے۔ ایڈن خود بھی ہوش حواس کھو چکے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ مصر کے ناصر ’نیل کے مسولینی‘ بن چکے ہیں۔ ایڈن مصر پر چڑھائی کرنا چاہتا تھا۔ ڈیلس ایڈن کے لیے ہدایات لایا تھا کہ ’صبر کرو لڑکے‘۔ ایڈن اس کے مہینوں بعد تک  ہاوس آف کامنز میں جھوٹ بولتا رہے۔ وہ یہ کہتے رہے کہ یہ سب کھیل اسرائیل کی مدد سے نہیں رچایا گیا جبکہ ایسا ہی کیا گیا تھا۔ ان کے اس جھوٹ پر کنزرویٹو پارٹی کے ساتھ ساتھ شاید برطانیہ کی اکثریت کو بھی یقین تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 میرے لیے ایران امریکہ کا تنازعہ شاید اسی لیے بہت عجیب ہے۔ لبنان میں ایک لمبے سفر کے بعد دو دن قبل بیروت میں واپز آ کر میں نے گذشتہ کئی ماہ کے اخباروں میں امریکہ ایران کشیدگی پر خبریں اور تجزیے پڑھنا شروع کیے۔ گو کہ مجھے یقین ہے یہ قیامت خیز جنگ ٹرمپ ،بولٹن اور پومپیو کی ذہنی اختراع ہے۔ اس میں امریکی میڈیا بھی شامل ہے، جو شاید اس لیے خوفزدہ ہے کہ شاید ٹرمپ جنگ چھیڑ بیٹھیں اور شاید اس بات سے زیادہ ڈر رہا ہے کہ ہو سکتا ہے ٹرمپ جنگ نہ چھیڑیں۔

ٹرمپ کی جانب سے مشرق وسطی کے گلے اور مردے کاٹنے والے جابر عرب حکمرانوں کی حمایت میں دیے جانے والے طویل بیانات پڑھنے میں تھکا دینے والے ہیں۔ اور میں لگ بھگ یہ یقین کر بیٹھا تھا کہ شاید یہ دھوکے باز، ہٹ دھرم ایرانی ہی تھے جو یکطرفہ طور پر جوہری ڈیل سے باہر نکلے اور واشنگٹن پر جھوٹے الزام لگا رہے ہیں کہ اس نے اس ڈیل کا احترام نہیں کیا۔

 لیکن  پھر مجھے یاد آیا کہ یہ دھوکے باز، ہٹ دھرم امریکی تھے جنہوں نے ایسا کیا اور اس ڈیل سے باہر نکلتے ہوئے ایران پر یہ جھوٹا الزام لگایا کہ وہ اس معاہدے کا پاس نہیں کر رہا۔ لیکن ٹرمپ کی دنیا میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔

ایرانی مغرب میں ایران کے بارے میں پائی جانے والی سمجھ بوجھ کےمقابلے میں مغرب کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کیسے انہوں نے کسی ڈرون یا باردوی سرنگ کے حملے کی تردید کرنی ہے اور امریکی عقاب کے مزید پر کیسے کھینچنے ہیں۔ ایرانی بھی معصوم نہیں ہیں۔

اس کہانی میں کوئی اچھے لوگ نہیں ہے۔ اگر ایران آبنائے حرمز کو بند کرنے کی کوشش کرتا ہے تو امریکی اس حوالے سے ’فیصلہ کن ردعمل‘ کی جانب جا سکتا ہے جیسا کہ سعودی اور حجت الاسلام ہنٹ چاہتے ہیں۔ لیکن ایران بے وقوف نہیں ہے۔ وہ کیوں امریکہ سے لڑنا چاہے گا جب یہ امریکہ ہی ہے جس نے انقلاب کے بعد ایران کے تمام دشمنوں کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ چاہے وہ طالبان ہوں، صدام ہو ں یا داعش۔ ایرانیوں کو تو اس بات کا شکر گزار ہونا چاہیے۔

حقیقی دنیا میں ایران اور امریکہ ایک دوسرے کے اتحادی ہونے چاہییں لیکن جوہری ڈیل سے نکلنے کے بعد واشنگٹن کی سمت کا تعین کرنا ممکن نہیں۔ اگر آپ ٹرمپ اور بولٹن کی کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی سمجھنا چاہتے ہیں تو کسی پاگل خانے میں موجود مریضوں سے ملیں۔ وہ آپ کو سمجھا دیں گے۔

روس اور چین گو کہ زمین پر ہی رہتے ہیں۔ شاید انہوں نے حلف برداری کی تقریب میں ٹرمپ کے کم حامیوں کی تصاویر دیکھی ہیں اور وہ کسی اور نتیجے پر پہنچے ہیں۔ تو آپ تہران کے مبہم اتحادی پوٹن اور شی جن پنگ کو ٹرمپ کو کہتا سننے کے لیے تیار رہیں:’ صبر کرو لڑکے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ