مہدی حسن: ’جو65 کی جنگ میں فوٹوگرافی کے لیے فرنٹ لائن گئے‘

حکومت پاکستان کی جانب سے صحافتی خدمات کے لیے ستارہ امتیاز سے نوازے جانے والے صحافی، مصنف،  محقق، تجزیہ کاراور صحافت کے استاد  پروفیسر آف ماس کمیونیکیشن ڈاکٹر مہدی حسن بدھ کو طویل علالت کے بعد 85 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ 

ڈاکٹر مہدی حسن نے پنجاب یونیورسٹی سے صحافت میں ماسٹرز کیا (تصویر: پنجاب یونیورسٹی نیوز الرٹ فیس بک)

حکومت پاکستان کی جانب سے صحافتی خدمات کے لیے ستارہ امتیاز سے نوازے جانے والے صحافی، مصنف،  محقق، تجزیہ کاراور صحافت کے استاد  پروفیسر آف ماس کمیونیکیشن ڈاکٹر مہدی حسن بدھ کو طویل علالت کے بعد 85 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ 

’صحافت کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر مہدی حسن کو فوٹوگرافی کا جنون کی حد تک شوق تھااور یہ ان کا پسندیدہ مشغلہ بھی تھا۔ان کے پاس متعدد 35 ایم ایم کے کیمروں کے علاوہ دو رولیفیکس کیمرے بھی تھے۔ فوٹو گرافی کا شوق 1965 میں انہیں لاہور کے جنگی زون کے فرنٹ لائن پر لے گیا، حالانکہ وہ پیشہ ور فوٹوگرافر نہیں تھے۔‘

پروفیسر ڈاکٹر مہدی حسن کے بھتیجے حیدر حسن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پروفیسر ڈاکٹر مہدی حسن بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے صحافی تھے۔ ان کا تدریسی کیرئیر 50 برس پر محیط تھا۔ وہ میڈیا مورخ، بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی میں صحافت اور ابلاغ عامہ کے ڈین اور پنجاب یونیورسٹی میں ماس کمیونیکیشن کے پروفیسر تھے۔  

حیدر حسن نے بتایا کہ پروفیسر ڈاکٹر مہدی حسن نے انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے چیئرپرسن کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ پاکستان کے ممتاز مواصلاتی ماہرین میں سے ایک تھے جو سیاسی تجزیہ میں مہارت رکھتے تھے۔ ڈاکٹر مہدی حسن کا شمار پاکستان کے چند میڈیا تاریخ دانوں میں  بھی ہوتا ہے جب کہ ڈاکٹر مہدی حسن ٹی وی نیوز چینلز اور ریڈیو سٹیشنوں کے باقاعدہ مبصر اور پینلسٹ تھے۔ 

حیدر کے مطابق ڈاکٹر مہدی حسن نے تاریخ، صحافت، ابلاغ عامہ اور سیاسی جماعتوں پر بہت سی کتابیں تصنیف کیں۔ ان کی کتاب دی پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان کو صحافیوں اور پروڈیوسروں نے وسیع پیمانے پر اپنے کام کے لیے ریفرنس کے طور پر استعمال کیا۔

حیدر حسن کا کہنا ہے کہ ایک طویل عرصے سے انسانی حقوق کے کارکن اور پاکستان کی گورننگ کونسل کے انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی گورننگ کونسل کے رکن ڈاکٹر مہدی حسن نے انسانی حقوق کے موضوع پر بھی بہت سے مقالے لکھے، اور متعدد سیمینارز میں شرکت کی۔ 

ان کی تعلیم کے حوالے سے حیدر نے بتایا کہ ڈاکٹر مہدی حسن نے ماس کمیونیکیشن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی جس کا موضوع تھا ’1857 سے 1947 تک عوامی رائے بنانے میں صحافت کا کردار۔‘

ڈاکٹر مہدی حسن نے پنجاب یونیورسٹی سے صحافت میں ایم اے کی ڈگری لی تھی۔ جب کہ 1990 میں انہوں نے   بطور فل برائٹ سکالر امریکہ میں یونیورسٹی آف کالوراڈو میں بھی تعلم حاصل کی  اور ’امریکی ماس میڈیا میں تیسری دنیا کے ممالک کی کوریج‘ پر تحقیق کی۔ انہوں نے امریکہ اور پاکستان میں تحقیقی مقالے بھی شائع کیے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بطور صحافی انہوں نے 1961 سے 1967 کے درمیان پاکستان پریس انٹرنیشنل کے سب ایڈیٹر اور رپورٹر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اس عرصے میں وہ پانچ مرتبہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ) کے عہدے دار بھی منتخب ہوئے۔ 

 ڈاکٹر مہدی حسن 1962 سے ریڈیو پاکستان، اور 1964 سے پاکستان ٹیلی ویژن کے نیوز مبصر اور تجزیہ کار بھی تھے۔

وائس آف امریکہ، بی بی سی نیوز، ڈوئچے ویلے سمیت قومی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ باقاعدگی سے پاکستان میں سیاسی پیش رفت پر ان کی رائے مانگتے رہے۔ انہوں نے پاکستان کے تمام بڑے اخبارات میں مضامین لکھے۔ 

 ڈاکٹر مہدی حسن کے بھتیجے حیدر حسن کا کہنا تھا کہ صحافت کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر مہدی حسن کو فوٹوگرافی کا جنون کی حد تک شوق تھااور یہ ان کا پسندیدہ مشغلہ بھی تھا۔ان کے پاس متعدد 35 ایم ایم کے کیمروں کے علاوہ دو رولیفیکس کیمرے بھی تھے۔ حیدر کہتے ہیں کہ انہیں فوٹو گرافی کا شوق 1965 میں لاہور کے جنگی زون کے فرنٹ لائن پر لے گیا، حالانکہ وہ پیشہ ور فوٹوگرافر نہیں تھے۔ 

پروفیسر ڈاکٹر مہدی حسن کو پاکستان میں اپنی صحافتی خدمات کے لیے 2012 میں صدر پاکستان نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا تھا۔ 

ڈاکٹر مہدی حسن کے سوگواران میں دو صاحبزادے اورایک بیوہ ہیں۔ ان کا نماز جنازہ بدھ کی شب ساڑھے نو بجے سکھ چین گارڈن ان کی رہائش گاہ پر ادا کیا جائے گا۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان