صحافیوں کا کام صحافت کرنا ہے سیاست نہیں: سپریم کورٹ

صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق کیس کی سپریم کورٹ میں پیر کو ہونے والی سماعت کے دوران جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ ’بطور جج ہم سیاست نہیں کرسکتے اسی طرح صحافیوں کا کام بھی صحافت کرنا ہے سیاست کرنا نہیں۔‘

جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ ’صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سپریم کورٹ مداخلت کرے گی۔ تنخواہوں اور چھانٹیوں کے معاملے پر بھی عدالت صحافیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔‘(تصویر: اے ایف پی)

صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق سپریم کورٹ میں زیر سماعت کیس کی پیر کو ہونے والی سماعت کے دوران جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ ’بطور جج ہم سیاست نہیں کر سکتے اسی طرح صحافیوں کا کام بھی صحافت کرنا ہے سیاست کرنا نہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’صحافت اور آزادی اظہار رائے تہذیب کے دائرے میں ہونا چاہیے۔‘

جسٹس اعجاز الحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے مذکورہ کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے آغاز میں ہی ابتدائی درخواست گزاروں اسد طور، عامر میر اور عمران شفقت نے روسٹرم پر جا کر کہا کہ وہ درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔

جسٹس اعجاز الحسن نے استفسار کیا کہ آپ درخواست کیوں واپس لینا چاہتے ہیں؟ جس پر صحافی عبدالقیوم صدیقی نے جواب دیا کہ ’گذشتہ ہفتے عدالتی تاریخ میں جو کچھ ہوا اس کی بنیاد پر درخواست واپس لیتے ہیں۔‘

اس پر جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ ’اگر آپ عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بننا چاہتے تو یہ آپ کی صوابدید ہے۔ عدالت آرٹیکل 184/3 کے تحت مقدمے کی کارروائی کو آگے بڑھائے گی۔‘

جسٹس اعجاز الحسن نے مزید کہا کہ ’صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سپریم کورٹ مداخلت کرے گی جبکہ تنخواہوں اور چھانٹیوں کے معاملے پر بھی عدالت صحافیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔‘

اسی دوران صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن امجد بھٹی کو عدالت نے روسٹرم پر بلایا اور کہا کہ ’پچھلے ہفتے جو ہوا اس کی روشنی میں اب آپ کیا کہیں گے؟‘

صحافی امجد بھٹی نے کہا کہ ’ان کی ایسوسی ایشن اب درخواست واپس نہیں لے گی بلکہ کیس کی پیروی کریں گے۔‘ انہوں نے عدالت کو صحافیوں کو نوکری سے نکالے جانے سے متعلق چند واقعات بتائے جس پر عدالت نے کہا کہ ’آپ یہ تمام تفصیلات تحریری شکل میں جمع کروائیں۔‘

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’آئین پاکستان میڈیا کو آزادی فراہم کرتا ہے، آزادی صحافت کا ذکر تو بھارتی اور امریکی آئین میں بھی نہیں ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’کوئی قانون آرٹیکل 19 کے متضاد ہوا تو کالعدم قرار دے دیں گے۔‘ جسٹس منیب اختر نے مزید کہا کہ ’کمرہ عدالت خالی بھی ہوا تو سماعت کریں گے۔‘

اس موقع پر جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے: ’عدالت نے خود کو مطمئن کرنا ہے کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تو نہیں ہو رہی، میڈیا قوم کا ضمیر اور آواز ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس معاملے پر جنرل سیکرٹری پریس ایسوسی ایشن سپریم کورٹ راجہ محسن اعجاز نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’معاملہ جینوئن صحافیوں کا ہے اس لیے ان کے بنیادی مسائل کے حل کا موقع اگر سپریم کورٹ پریس ایسوسی ایشن کو ملا ہے تو وہ ضرور اس درخواست کی پیروی کریں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ وہ خود بھی تفصیلات جمع کریں گے لیکن ’اس کے علاوہ کسی صحافی سے کہیں ناروا سلوک ہوا ہے تو وہ اپنا واقعہ ہمیں بتائے، اس کا نام ہم سامنے نہیں لائیں گے لیکن سپریم کورٹ کے فورم سے اس کا مسئلہ حل کروائیں گے۔‘

درخواست گزار صحافیوں کی جانب سے کیس واپس لینے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’یہ ان کا ذاتی فعل ہے لیکن ہم اب اس درخواست کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔‘

سماعت میں 20 منٹ کی کارروائی کے بعد سپریم کورٹ نے ڈی جی ایف آئی اے، آئی جی اسلام آباد، چئیرمین پیمرا اور اٹارنی جنرل کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا۔

دوسری جانب سپریم کورٹ نے تمام ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی طلب کرلیا اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں جاری کارروائی کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے سماعت 15 ستمبر تک ملتوی کر دی۔

کیس تھا کیا؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صحافیوں کے گروہ کی جانب سے کمرہ عدالت میں دی گئی درخواست پر 20 اگست کو ازخود نوٹس لیا تھا۔

اس نوٹس کے اگلے ہی دن سپریم کورٹ نے قائم مقام چیف جسٹس کی زیر سربراہی ایک لارجر بینچ تشکیل دے دیا جس کی سماعت 23 اگست کو ہوئی، جس میں یہ جائزہ لیا گیا کہ کیا اس طرح کوئی بھی جج ازخود نوٹس لے سکتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ درخواست براہ راست متعلقہ جج کے بینچ میں دی گئی ہے اور سپریم کورٹ کے ضابطے کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔

26 اگست کو قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے اس درخواست پر سماعت کی اور پاکستان میں صحافیوں کو ہراساں کرنے اور میڈیا سینسرشپ سے متعلق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ازخود نوٹس پر جائزے کا فیصلہ واپس لیتے ہوئے اس حوالے سے شروع ہونے والی عدالتی کارروائی بھی ختم کر دی۔

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل اور بار سے تجاویز طلب کیں اور ان کی تجاویز کی روشنی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا حکم نامہ غیر موثر کر دیا گیا لیکن درخواست کو میرٹ پر برقرار رکھتے ہوئے اس کے لیے الگ تین رکنی بینچ تشکیل دے دیا گیا، جو اب کیس کو سن رہا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان