’شہباز شریف کی واپسی کی ضمانت نہیں‘: سپریم کورٹ میں فیصلہ چیلنج

شہباز شریف کا نام بلیک لسٹ سے نکالنے کے معاملے پر وفاقی حکومت نے لاہور ہائی کورٹ کا سات مئی کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ وزارت داخلہ کے سپریم کورٹ سے اپیل پر فیصلے تک لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

(فائل فوٹو: روئٹرز)

شہباز شریف کا نام بلیک لسٹ سے نکالنے کے معاملے پر وفاقی حکومت نے لاہور ہائی کورٹ کا سات مئی کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ وزارت داخلہ نے سپریم کورٹ سے اپیل پر فیصلے تک لاہور عدالت کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا کی ہے۔

وفاقی حکومت کی اپیل میں شہباز شریف کو فریق بنایا گیا ہے۔ اپیل میں بتایا گیا ہے کہ شہباز شریف کا نام پی این آئی ایل میں تھا لیکن لاہور ہائی کورٹ نے نوٹس جاری کیے بغیر حتمی ریلیف فراہم کر دیا ہے۔  نیز نوٹس کے بغیر لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا جواز نہیں تھا۔

درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ شہباز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کی درخواست پر اسی روز فیصلہ سنا دیا گیا۔ لاہور ہائی کورٹ نے قانونی اصولوں کے برعکس فیصلہ سنایا لہذا عدالت عظمی شہباز شریف کا نام بلیک لسٹ سے نکالنے کے ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے۔

 درخواست میں مزید کہا گیا کہ لاہور ہائی کورٹ کا حکم قانون کی نظر میں برقرار نہیں رکھا جا سکتا کیونکہ لاہور ہائی کورٹ نے متعلقہ حکام سے جواب مانگا نہ کوئی رپورٹ طلب کی۔ بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا یکطرفہ فیصلہ نہیں دیا جا سکتا۔ وزارت داخلہ نے درخواست میں مزید کہا کہ شہباز شریف کے واپس آنے کی کوئی گارنٹی نہیں ہے اور اس کے علاوہ شہباز شریف نوازشریف کی واپسی کے ضامن بھی ہیں جب کہ شہباز شریف کی اہلیہ، بیٹا، بیٹی اور داماد پہلے ہی مفرور ہیں۔

سوموار کی صبح وزارت داخلہ نے وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد شہباز شریف کا نام ایگزٹ کنٹر ول لسٹ میں بھی شامل کر دیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزارت داخلہ سے جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق یہ نام نیب کی سفارش پر فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ نوٹیفیکیشن میں وجوہات بتائی گئی ہیں کہ نیب ریفرنس کا ٹرائل شروع ہو چکا ہے اور اس پر احتساب عدالت میں جرح بھی جاری ہے ایسے میں شہبازشریف کو ملک سے باہر بھیجنے سے ٹرائل تاخیر کا شکار ہوسکتا ہے۔ شہباز شریف پر منی لانڈرنگ اور اثاثہ جات کا سات ارب روپے کا کیس ہے۔

نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیاہےکہ آئین کےآرٹیکل 25 کے تحت مقدمے میں ایک ملزم کےساتھ امتیازی سلوک نہیں ہوسکتا اور نہ ہی حکومت کے پاس ایسی کوئی دستاویز ہے جس سے ثابت ہو کہ شہباز شریف کو واقعی طبی علاج کی ضرورت ہے۔

پی این آئی ایل اور ای سی ایل میں کیا فرق ہے؟

پی این آئی ایل (پراونشل نیشنل آئیڈینٹیفیکیشن لسٹ) صوبائی قومی شناختی فہرست ہے جس کے تحت قانون نافذ کرنے والے ادارے براہ راست ائیر پورٹ پر ایف آئی اے حکام کو کسی بھی مشتبہ شخص کے بیرون ملک روانگی سے متعلق انتباہ کر دیتے ہیں اور اُس شخص کا نام نو فلائی لسٹ میں پی این آئی ایل کے تحت ڈال دیا جاتا ہے جبکہ ای سی ایل میں نام ڈالنے کے لیے کابینہ کی منظوری ضروری ہوتی ہے۔

پی این آئی ایل، وفاقی تحقیقاتی ادارے کے پاس علیحدہ سے ایک عارضی فہرست ہے جس میں زیادہ تر سیاستدانوں کے نام شامل ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان