سندھ بورڈ آف ریونیو کرپٹ ترین ادارہ ہے: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ سندھ کی زمینوں کا ریکارڈ 2007 میں کمپیوٹرائز ہونا تھا، جو 14 سال گزرنے کے باوجود اب تک کمپیوٹرائز کیوں نہیں ہوا؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ بورڈ آف ریونیو کے سینیئر رکن ہر سماعت میں دو دو ماہ کا وقت مانگتے ہیں، مگر برسوں گزرنے کے باوجود یہ کام مکمل نہ ہوسکا (فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ)

پاکستان کی سپریم کورٹ نے 14 سال گزرنے کے باوجود سندھ کی زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائز نہ کرنے پر صوبائی حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ تین ماہ میں ریکارڈ کو کمپیوٹرائز کیا جائے۔  

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں بدھ کو مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کی زمینوں کا ریکارڈ 2007 میں کمپیوٹرائز ہونا تھا تو 14 سال گزرنے کے باوجود اب تک کمپیوٹرائز کیوں نہیں ہوا؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ بورڈ آف ریونیو کے سینیئر رکن ہر سماعت میں دو دو ماہ کا وقت مانگتے ہیں، مگر برسوں گزرنے کے باوجود یہ کام مکمل نہ ہوسکا۔ 

انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا: ’سندھ کی زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائز نہ ہونے کے باعث زمینوں پر ہزاروں تنازعات پیدا ہو رہے ہیں۔ بورڈ آف ریونیو کسی کی زمین کسی کو الاٹ کر دیتا ہے۔ زمینوں پر قبضے بھی اسی وجہ سے ہو رہے ہیں۔ ہم کون سی صدی میں رہ رہے ہیں۔ یہ ناکلاس کیا ہوتا ہے؟ اس صدی میں بھی ناکلاس چل رہا ہے؟ ناکلاس زمینوں پر اربوں کھربوں روپے بنائے جا رہے ہیں۔‘  

سندھ بورڈ آف ریونیو کے قانون کے مطابق سندھ میں زمین کی الاٹمنٹ کی تین اقسام ہوتی ہیں جن میں سروے زمین، نا کلاس زمین اور تیسری موروثی زمین شامل ہیں۔  

سروے زمین بورڈ آف ریونیو الاٹ کرتا ہے۔ اس زمرے میں آنے والی زمین تجارتی اور تعمیراتی مقاصد کے لیے استعمال ہوسکتی ہے اور اس زمین کو 99 سالوں کے لیے لیز پر دیا جاتا ہے۔  

ناکلاس زمین صرف زرعی مقاصد کے لیے دی جاتی ہے اور اس پر کوئی تجارتی یا تعمیراتی منصوبہ نہیں بن سکتا۔ یہ زمین 30 یا 33 سالوں کی لیز پر دی جاتی ہے۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تیسری قسم کی زمین موروثی کہلاتی ہے اور یہ بھی صرف زرعی مقاصد کے لیے ہی استعمال ہوسکتی ہے۔   

جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا: ’کراچی میں ناکلاس کے نام پر اربوں روپے بنائے جا رہے ہیں۔ یہ سب گورکھ دھندہ بنایا جا رہا ہے۔ ہمیں آج کے دور میں نا کلاس نہیں چاہیے۔ بورڈ آف ریونیو سب سے کرپٹ ترین ادارہ ہے۔ زمینوں پر قبضے بورڈ آف ریونیو کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔‘  

سماعت کے دوران سینیئر ممبر بورڈ آف ریونیو نے عدالت کو بتایا کہ صوبے میں سوائے ضلع ٹھٹھہ کے تمام ریکارڈ مرتب کر لیا گیا، جس پر عدالت نے کہا کہ ٹھٹھہ کا ریکارڈ کمپیوٹرائز کرنے کے لیے آخری بار دو ماہ کا وقت 2018 میں مانگا گیا تھا، مگر تین سال سے ٹھٹھہ کا ریکارڈ مرتب نہ ہونا عجیب بات ہے۔

عدالت نے سوال کیا کہ ’ٹھٹھہ کا ریکارڈ کیوں کمپوٹرائز نہیں ہو پا رہا؟ اس کے علاوہ کراچی کا سروے کب ہوگا؟ سروے کرنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟‘

ان سوالات کے جواب میں سینیئر ممبر بورڈ آف ریونیو نے کہا کہ چھ ماہ میں کراچی کا سروے مکمل کرلیں گے۔

سماعت کے دوران عدالت نے سینیئر ممبر بورڈ آف ریونیو کو سرکاری اراضی واگزار کرانے کی بھی ہدایت کی۔

عدالت نے سینیئر ممبر بورڈ آف ریونیو کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر عدالتی فیصلے پر عمل نہ ہوا تو آپ ذمہ دار ہوں گے، آپ کے خلاف عدالتی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ بورڈ آف ریونیو کے تمام ذمہ داران کے خلاف کارروائی کریں گے۔ سرکاری اراضی واگزار کرائی جائے۔ سرکاری اراضی کو پارکس میں تبدیل کیا جائے۔‘ 

جسٹس اعجاز الاحسن نے بورڈ آف ریونیو کو تمام ریکارڈ کمپیوٹرائز کرنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ صوبے کا تمام ریکارڈ تین ماہ کے اندر کمپیوٹرائز کیا جائے اور اس کے لیے مزید وقت ہرگز نہیں دیا جائے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان