’ٹی ایل پی کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کو خفیہ رکھا جا رہا ہے کیونکہ کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے۔‘
یہ آخری ٹویٹ تھی یکم نومبر کو پاکستان کے انگریزی اخبار روزنامہ ڈان کے سابق ایڈیٹر و سینیئر صحافی ضیاالدین کی، جو اسلام آباد میں پیر کو 83 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ وہ کچھ عرصے سے شدید علیل تھے اور ہسپتال میں زیر علاج تھے۔
Accord reached with the TLP is being kept secret because no accord exists. Rehman was not accompanied by any govt. representative in his talks. Actually he guaranteed on behalf of the Institution that it would get the govt2 accept TLP’s conditions in 10 days.
— Muhammad Ziauddin (@MuhammadZiauddi) November 1, 2021
ان کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی سے مذاکرات کے لیے مفتی منیب کے ساتھ کوئی حکومتی نمائندہ نہیں تھا۔
پاکستانی شہر اقتدار میں رہتے ہوئے مرحوم نے سیاست کے کئی اہم اتار چڑھاؤ بڑے قریب سے دیکھے تھے۔ وہ حکومتی پالیسیوں کے سخت ناقد کے طور پر دیکھے جاتے تھے۔
ان کی نماز جنازہ بعد نماز عصر میڈیا ٹاون بلاک اے کی جنازہ گاہ میں ادا کی جائے گی۔
روزنامہ دنیا کے ایک اگست میں شائع ہونے والے کالم میں محمد ضیاالدین کی زندگی اور صحافت پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ اس کالم میں صحافی رؤف کلاسرہ نے لکھا کہ محمد ضیاالدین نے 1993 میں بےنظیر بھٹو کے وزیراعظم بننے سے متعلق اہم انکشافات کیے تھے۔
اس تحریر میں ضیاالدین کی آنجہانی سابقہ وزیراعظم سے ملاقاتوں اور زاتی زندگی سے متعلق واقعات کا بھی زکر ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کالم میں ایک دلچسپ واقعے کا ذکر بھی ہے جب ضیاالدین ڈان اسلام آباد کے بیورو چیف تھے اور پارلیمان کی رپورٹنگ کیا کرتے تھے۔
ایک ایسے اجلاس کے بعد کسی پیپلزپارٹی کے کارکن نے انہیں بتایا کہ بےنظیر بھٹو انہیں چیمبر میں بلا رہی ہیں۔
ضیاالدین نے اپنی یاداشت میں بیان کیا کہ اس وقت آصف علی زرداری بھی وہاں موجود تھے، ان کے ساتھ کوئی شخص بھی تھا جس نے رخصت کے وقت ان کے پاؤں چھوئے۔ یہ بات بےنظیر بھٹو کو ناگوار گزری اور بقول ضیاالدین کے وہ اپنے شوہر پر برس پڑیں۔ نہ صرف یہ بلکہ بےنظیر بھٹو کے منہ سے صحافی نے ان کے بھائی مرتضٰی کا نام بھی سنا۔
بقول ان کے سابقہ وزیراعظم اس وقت روہانسی ہوگئی تھیں اور انہوں نے زرداری کو اپنے بھائی سے تعلقات خراب ہونے کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا۔ ضیاالدین نے مزید لکھا کہ اس وقت آصف زرداری سے جواب نہ بن پایا اور بےنظیر نے یہاں تک کہہ دیا کہ، ’آصف اب کی دفعہ ہماری حکومت آئی تو تم مجھے پاکستان نظر نہ آنا۔‘ یہ بات تب تھمی جب اعتزاز احسن چیمبر میں داخل ہوئے اور بےنظیر چپ ہوگئیں اور زرداری کمرے سے باہر چلے گئے۔
اس واقعے پر ضیاالدین نے اعتزاز احسن سے پوچھا اگر انہوں نے کچھ سنا، جس پر اعتزاز نے جواب دیا، ’ہاں، لیکن اگر ایسا ہوا اور ہماری حکومت آگئی تو آپ دیکھیں گے کہ زرداری یہیں پاکستان میں ہوں گے۔‘
کلاسرہ نے اس دور میں سینیئر صحافی کے انکشافات کو حال سے جوڑتے ہوئے کہا ہے کہ شاید محمد ضیاالدین جیسا ہی پیشہ ور صحافی امریکی صدر جو بائیڈن کے عمران خان کو فون نہ کرنے کے معمے کی وجہ بیان کرسکتا ہے۔
سینیئر صحافی کی وفات کی خبر پر ردعمل اور تعزیت کے پیغامات سوشل میڈیا پر آنا شروع ہوگئے ہیں۔
صحافت کا ایک بڑا نام۔۔انتہائی نفیس اور مہربان استاد ضیاء الدین صاحب انتقال فرماگئے ھیں۔اللہ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔آمین pic.twitter.com/zCMCKqYuCz
— Dr Shahid Masood (@Shahidmasooddr) November 29, 2021
Very sad to hear, May his soul rest in peace. Had a chance to meet him a few times when I was writing for ET - a great loss for journalist community in Pakistan. https://t.co/90oo4L4ALA
— Hussain Nadim (@HNadim87) November 29, 2021
غیر جانبدار صحافت کا ایک اور باب بند ہوا ' اللہ پاک ضیا الدین صاحب کو غریق رحمت فرمائے آمین pic.twitter.com/8Ar4tR2MdI
— Gohar Butt (@faheemgohar1) November 29, 2021
سینئر اینکر اور صحافی عاصمہ شیرازی نے بھی مرحوم کو ایک ٹویٹ میں کچھ یوں یاد کیا۔
انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ ضیاء الدین صاحب جیسے صحافی بلاشُبہ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ہم آج ایک اُستاد اور ہمیشہ راہنمائی کرنے والی شخصیت سے محروم ہوں گے۔#RIP #ZiaUdin sb @MuhammadZiauddi pic.twitter.com/XBGB7IQV8F
— Asma Shirazi (@asmashirazi) November 29, 2021
ضیا الدین نے 1964 میں کراچی یونیورسٹی سے صحافت میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی۔ اسی سال انہوں نے خبر رساں ایجنسی پاکستان پریس انٹرنیشنل (پی پی آئی) میں ایک رپورٹر کے طور پر صحافت میں قدم رکھا۔
بعد میں انہوں نے ڈان میں شمولیت اختیار کی جو ان کی کسی صحافتی ادارے کے ساتھ طویل ترین ملازمت تھی۔ انہوں نے اسلام آباد اور لاہور کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ وہ 2006 سے 2009 تک لندن میں اخبار کے نامہ نگار بھی رہے۔