نہرو کو شادی کی پیشکش کرنے والی گنگوبائی کاٹھیاواڑی کون تھیں؟

گجرات کے علاقے کاٹھیاواڑ میں ایک ’معزز‘ اور کھاتے پیتے گھرانے میں جنم لینے والی گنگا ہرجیون داس کو اپنے گھر کے اکاؤنٹنٹ رمنیک لال سے محبت ہو گئی تھی۔ ظاہر ہے گھر والے کبھی اس رشتے کو سماجی سطح پر قبول نہیں کر سکتے تھے۔ دونوں نے گھر سے بھاگ کر شادی کر لی۔ 

گنگوبائی کاٹھیاواڑی کے خاندان والوں نے اعتراض کیا ہے کہ سنجے لیلا بھنسالی کی فلم  میں گنگو بائی کی کردار کشی کی گئی ہے (بھنسالی پروڈکشنز)

اب تو سنجے لیلا بھنسالی کی نئی فلم کا سنتے ہی ذہن کسی متوقع تنازع کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ ماضی قریب میں ان کی فلم ’رام لیلا‘ اور ’پدما وت‘ کے ناموں پر ہنگامہ کھڑا ہوا تو اب گنگوبائی کاٹھیاواڑی کا معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔ اگرچہ رام لیلا اور پدما وت کا نام ’عوامی جذبات‘ کو ٹھیس پہنچنے کے پیش نظر تبدیل کیا گیا تھا لیکن گنگوبائی کاٹھیاواڑی پر اعتراضات ذرا ’ذاتی‘ نوعیت کے ہیں۔ 

بمبئی میں جسم فروشی کے مشہور ترین اڈے کماٹھی پورہ میں آج سے تقریباً 60 برس پہلے کوٹھا چلانے والی گنگوبائی کی کہانی حسین زیدی اور جین بورجیس کی کتاب ’مافیا کوئینز آف ممبئی‘ پر مبنی ہے۔ اس کہانی پر سنجے لیلا بھنسالی نے عالیہ بھٹ کو مرکزی کردار میں لے کر حال ہی میں فلم بنائی ہے جس سے گنگوبائی کے خاندان کے لوگ خوش نہیں۔ 

گنگوبائی کی اپنی اولاد تو نہیں تھی لیکن انہوں نے چار بچوں کو گود لیا تھا۔ انہیں میں سے ایک بابو جی راؤ عدالت چلے گئے جہاں ہائی کورٹ کے بعد اب معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں فلم پر اعتراضات کیا ہیں اور گنگوبائی اصل میں تھیں کون؟ 

ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے

 گنگوبائی کاٹھیاواڑی کی نواسی بھارتی سوناوانے نے ای ٹائمز کے ساتھ بھنسالی اور عالیہ بھٹ کی فلم پر بات کرتے ہوئے کہا ’میں ان سے کہنا چاہتی ہوں کہ انہوں نے جس طرح گنگوبائی کاٹھیاواڑی میں میری نانی کی تصویر کشی کی ہے ذرا کسی بھی ماں کو اس تناظر میں رکھ کر دیکھیں۔ اس کا کیا جواز ہے؟ یہ بدنام کرنے والی بات ہے جسے میں برداشت نہیں کروں گی۔ وہ میری نانی تھیں۔ یہ ان کا قصور نہیں تھا کہ وہ کماٹھی پورہ میں رہیں۔ کماٹھی پورہ میں مختلف قسم کے لوگ رہتے ہیں۔ تو کیا کماٹھی پورہ کی تمام عورتیں طوائف ہیں؟ اس (بھنسالی) نے ہمارے نام کو داغ لگایا۔ ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں۔ ہمارے رشتہ دار اور آس پاس کے لوگ پوچھتے ہیں ’ایسی تھی تمہاری نانی؟‘

ایک گھریلو لڑکی جسم فروشی کے اڈے پر کیسے پہنچیں؟

گجرات کے علاقے کاٹھیاواڑ میں ایک ’معزز‘ اور کھاتے پیتے گھرانے میں جنم لینے والی گنگا ہرجیون داس کو اپنے گھر کے اکاؤنٹنٹ رمنیک لال سے محبت ہو گئی تھی۔ ظاہر ہے گھر والے کبھی اس رشتے کو سماجی سطح پر قبول نہیں کر سکتے تھے۔ دونوں نے گھر سے بھاگ کر شادی کر لی۔ 

چند روز محبت کی پینگھ جھولنے کے بعد رمنیک لال نے انہیں دھوکے سے جسم فروشوں کے ہاتھ پانچ سو روپے کے عوض بیچ دیا۔ گنگا کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کے گھر والے اب اسے کبھی قبول نہیں کریں گے سو کوٹھے کے ناقابلِ برداشت ماحول کے باوجود انہیں یہیں رہنا پڑا۔ 

 گنگو بمبئی کے ڈان کریم لالہ کی راکھی بہن کیسے بنیں؟

سیکس ورکر کے طور پر گنگو کے گاہک ہمیشہ ان کی صلاحیتوں کے معترف رہے۔ یہی تعریفیں سن کر ایک روز چھ فٹ کا لمبا تڑنگا پٹھان آ نکلا۔ 28 سالہ گنگو کے ساتھ جنسی تشدد کرنے کے بعد وہ پیسے دیے بغیر چلا گیا۔ اگلے چار دن تک گنگا کسی اور گاہک کے قابل نہ تھی۔ 

دیگر گاہوں سے جانچ پڑتال کے بعد گنگو پر منکشف ہوا کہ مذکورہ پٹھان کا نام شوکت خان ہے اور وہ کریم لالہ گروپ کا رکن ہے۔ 

پختون جرگہ ہند کے سربراہ کریم لالہ کو بطور ڈان ابھی ملک گیر شہرت تو حاصل نہیں ہوئی تھی لیکن مقامی سطح پر وہ نام بنا چکے تھے۔ ایک دن گنگو کریم لالہ سے ملنے جا پہنچی اور ساری روداد سنا ڈالی۔ 

گنگا نے کریم لالہ سے تحفظ کی درخواست کی اور اپنے پرس سے ایک ڈوری نکالی اور کریم لالہ کو راکھی بھائی بنا لیا۔

طے شدہ منصوبے کے تحت جیسے ہی اگلی بار شوکت خان گنگو کے کوٹھے پر آیا کریم لالہ کو اطلاع پہنچا دی گئی۔ کریم لالہ فوراً پہنچے اور سب کے سامنے شوکت خان کی خوب ٹھکائی کی۔ جانے سے پہلے کریم لالہ نے سب کے سامنے بلند آواز میں کہا، ’گنگو میری راکھی بہن ہے۔ اگر اب کسی نے اس سے بدسلوکی کی تو میں اس کا سر اڑا دوں گا۔‘

نہرو سے ملاقات اور شادی کی پیشکش

کریم لالہ کے سرعام راکھی بہن کہنے کی دیر تھی کہ یک لخت بےبس سیکس ورکر گنگو کا لیول ہی کچھ اور ہو گیا۔ نائیکہ سمیت اب کسی کی جرأت نہیں تھی کہ وہ گنگوبائی پر رعب جما سکے۔ لوگوں نے انہیں مقامی الیکشن لڑنے کی طرف دھکیلا جو وہ جیت گئیں۔ 

اب گنگوبائی کوٹھے والیوں کے تحفظ کے لیے بھرپور طریقے سے سرگرم تھیں۔ انہوں نے کئی ایسی بچیوں کو گھر واپس بھیجا جنہیں دھوکہ دہی سے دھندے میں پھنسا دیا گیا تھا۔ جسم فروشی کی دنیا میں وہ ایسی نائیکہ تھیں جن کے لیے دھندے اور پیسے کی نسبت کوئی بھی عورت بطور انسان مقدم تھی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بمبئی میں جسم فروشی کے مشہور ترین اڈے کماٹھی پورہ کے آس پاس رہائشی علاقے اور تعلیمی ادارے بھی موجود تھے۔ 1920 کی دہائی میں قائم ہونے والے سینٹ اینتھونی گرلز ہائی سکول نے مقامی آبادی کے ساتھ مل کر جسم فروش خواتین سے بعض مقامات خالی کرانے کی مہم چلائی۔ ان کا کہنا تھا کہ سیکس ورکرز کی وجہ سے نوجوان بچیوں کے اخلاق منفی اثرات قبول کر سکتے ہیں۔

سیکس ورکرز کی التجا پر گنگوبائی نے اپنے سیاسی تعلقات استعمال کرتے ہوئے پردھان منتری نہرو سے ملاقات کا وقت لیا۔ نیو دہلی میں نہرو سے ملاقات کے دوران گنگوبائی نے کہا کہ یہ کوٹھے ایک صدی سے قائم ہیں جبکہ تعلیمی ادارے تو کل کی بات ہے۔ بعد میں نہرو کی مداخلت پر ان خواتین کو وہاں سے منتقل کرنے کا مطالبہ رد کر دیا گیا۔ 

دوران ملاقات نہرو نے کہا جب آپ کوئی اچھی ملازمت یا شوہر ڈھونڈ سکتی ہیں تو پھر اس دھندے کو ترک کیوں نہیں کر دیتیں؟ بغیر کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیے گنگوبائی نے کہا اگر آپ مجھ سے شادی کے لیے تیار ہیں تو میں یہ چھوڑ دیتی ہوں۔ 

حیران و پریشان نہرو نے سختی سے ڈانٹ دیا جسے سن کر گنگوبائی نے کہا ’پردھان منتری جی ناراض نہ ہوں۔ میں تو محض یہ ثابت کرنا چاہتی تھی کہ مشورہ دینا ہمیشہ آسان ہوتا ہے لیکن خود عمل کرنا مشکل۔‘ 

حیرت ہے جو گنگوبائی اپنے خیالات میں اتنی واضح اور اپنے پیشے پر کبھی شرمندہ نہ تھیں ان کی اولاد کس بنیاد پر اعتراضات کر رہی ہے۔    

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم