پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کا 23-24 فروری کو ماسکو کا دورہ یوکرین پر روس اور مغرب کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران جنوبی ایشیا میں بدلتی ہوئی جیو پولیٹیکل صورت حال اور یہاں وجود پاتے نئے اتحادوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
جنگ کے ماحول میں مغربی دباؤ کے باوجود 23 سالوں میں کسی پاکستانی سربراہ کا روس کا دورہ کرنے کا عمران خان کا فیصلہ نشان دہی کرتا ہے کہ اسلام آباد ماسکو کے ساتھ اپنے ابھرتے ہوئے سٹریٹجک تعلقات کو اہمیت دیتا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے پاکستان کے دفتر خارجہ کو اس دورے پر نظر ثانی کرنے کی کال کی گئی تھی جسے شائستگی سے مسترد کر دیا گیا۔ پاکستان نے روس کے دورے کو ایک دوطرفہ دورہ قرار دیا اور بتایا کہ اس دورے کا منصوبہ روس اور یوکرین کے بحران سے بہت پہلے کا تھا اور اس دورے کا روس اور مغربی کشیدگی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
تاہم یہ بات بھی واضح ہے کہ روس کے ساتھ قربت اختیار کرنے کا برہنہ اشارہ دے کر پاکستان کو اس مغربی دنیا سے مزاحمت کا سامنا ہو سکتا ہے جس پر پاکستان کی معیشت اور اقتصادیات کا انحصار ہے۔
عمران خان کے دورہ روس کے دوران دونوں فریقوں نے طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان سے پیدا ہونے والے مشترکہ خدشات پر تبادلہ خیال کیا۔ اس کے علاوہ وہاں ابھرتے ہوئے انسانی بحران، انسداد دہشت گردی کے چیلنجوں اور طالبان کی جانب سے ایک جامع حکومت کی تشکیل میں ہچکچاہٹ پر بھی بات ہوئی۔ اسلام آباد اور ماسکو نے ڈھائی ارب ڈالر کے پاک سٹیم گیس معاہدے پر بھی بات چیت کی، جو کراچی بندرگاہ سے قصور، پنجاب تک 1,100 کلومیٹر طویل گیس پائپ لائن ہے۔
چین کی حمایت میں فروغ پاتی روس اور اسلام آباد کی قربتیں بھارت نئی دہلی کو بےچین کر کے اسے مزید امریکہ کی طرف دھکیل سکتی ہیں۔
روس کے حوالے سے گذشتہ برسوں کے دوران واشنگٹن کی سرد مہری اور بیجنگ کے مل کر کام کرنے کے رویوں سے پاکستان اور روس کی دوریاں ختم ہوئیں جبکہ واشنگٹن اور بیجنگ سرد جنگ کے سابق حریف رہے ہیں۔ ماسکو میں بظاہر جب صدر ولادی میر پوتن نے یوکرین پر حملے کا اعلان کیا تو ایسے میں وہاں پاکستان کی، جو سرد جنگ میں امریکہ کا اتحادی تھا، موجودگی نے بڑی طاقتوں کے ساتھ جنوبی ایشیا کے بین الریاستی اتحاد پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ عمران خان کی دورۂ روس کو مغرب پاکستان کی جانب سے ماسکو کے موقف کی کھلی منظوری کے طور پر دیکھ رہا ہے، باوجود اس کے کہ اسلام آباد غیر جانبداری کا دعویٰ کرتا ہے۔
مغرب سے دوری کا سامنا کرنے والے روس اور پاکستان 2010 کی دہائی سے قریب آ رہے تھے۔ 2000 کی دہائی کے وسط میں امریکہ آہستہ آہستہ پاکستان سے دور ہو گیا اور چین کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کے ساتھ ہتھیاروں کے معاہدوں کے ذریعے تعاون کیا اور اسے خصوصی نیوکلیئر سپلائر گروپ میں شامل کر کے چین کے مقابل کھڑا کیا حالانکہ جوہری پھیلاؤ کے معاہدے اس راہ میں رکاوٹ کے طور پر بھی موجود تھے۔ توازن قائم کرنے کے لیے دہلی اور واشنگٹن کے اس اتحاد اور جنوبی ایشیا میں کسی حد تک روایتی برابری کو برقرار رکھنے کے لیے اسلام آباد بیجنگ اور ماسکو کی طرف بڑھ گیا۔
2015 میں اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت سی پیک کے ذریعے جنوبی ایشیا میں چین کے فیصلہ کن داخلے نے پاکستان کو امریکہ سے مزید دور اور پھر پہلے چین اور بعد میں روس کے قریب دھکیل دیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بیجنگ نے گذشتہ دسمبر میں اسلام آباد کے دورہ ماسکو کے لیے سہولت فراہم کی تھی جب خان اور پوتن نے بیجنگ سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی تھی۔
QUAD کے چار ممالک پر مشتمل چین مخالف اتحاد میں بھارت کی باضابطہ شمولیت، جس میں امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا بھی شامل ہیں، اور اگست 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلا نے جنوبی ایشیا میں نئے عالمی اتحادوں کی شکلیں واضح کی ہیں۔
ایک طرف دہلی کو خطے میں چین کے مقابلے کے لیے کھڑا کرنے کی واشنگٹن کی کوششوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بیجنگ اور ماسکو مل کر اسلام آباد کی مدد کر رہے ہیں تو دوسری جانب بھارت جنوبی ایشیا میں چین کے بڑھتے ہوئے قدموں کو چیلنج کرنے کے لیے امریکہ کو گلے لگا رہا ہے۔
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو عمران خان کا ماسکو دورہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے 1950 میں امریکہ کے پہلے سرکاری دورے کے بالکل برعکس تھا۔ لیاقت علی خان نے روس کے سرکاری دورے کی دعوت کو نظر انداز کیا اور اس کی بجائے واشنگٹن چلے گئے تھے۔ یوں اس کے بعد پاکستان کمیونزم کے خلاف مغربی بلاک میں شامل ہو گیا۔ اس کے بعد کے سالوں میں پاکستان نے واشنگٹن کے ساتھ دو بڑے سکیورٹی معاہدوں پر دستخط کیے یعنی 1945 میں SEATO اور 1955 میں CENTO کے معاہدے پر جسے بغداد پیکٹ بھی کہا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سات دہائیوں کے بعد لیاقت علی خان کے امریکی دورے کے برعکس عمران خان نے دسمبر 2021 میں سمٹ فار ڈیموکریسی کے لیے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے بائیڈن انتظامیہ کی دعوت کو مسترد کر دیا۔ اس کی بجائے وہ بیجنگ سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے چین گئے، جس کا امریکہ اور مغربی ممالک نے بائیکاٹ کر رکھا تھا اور پھر وہاں سے پلٹ انہوں نے ماسکو کا دورہ کیا۔ یہ دورہ عین اس وقت ہو رہا تھا جب یوکرین پر روس اور مغرب کی کشیدگی اپنی انتہا کو چھو رہی تھی۔
دنیا میں بڑی طاقتوں کی سیاست کے دور میں پاکستان کی طرف سے غیرجانبدار خارجہ پالیسی پر عمل کرنے اور کسی بھی بلاک کا حصہ نہ بننے کا استدلال مغرب میں شاید پذیرائی نہ پا سکے۔ درحقیقت پاکستان کی طرف سے غیرجانبداری کے ساتھ ساتھ یوکرین کے خلاف روسی جارحیت کی مذمت میں ہچکچاہٹ اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ووٹنگ سے باز رہنے کے فیصلے کو ماسکو کے موقف کی کھلی منظوری تصور کیا جائے گا۔ اپنی ماسکو یاترا شروع کرنے سے پہلے عمران خان نے روس یوکرین کشیدگی پر ’افسوس‘ کا اظہار کیا اور رشیا ٹوڈے کو انٹرویو دیتے ہوئے ’سفارتی حل‘ پر زور دیا۔
ساتھ ہی پاکستان نے یوکرین کو اس کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی حمایت کا بھی یقین دلایا۔
چین اور روس کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت کے باوجود امریکہ اور یورپی یونین اب بھی پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار اور برآمدی منڈیاں ہیں۔ لہٰذا اسلام آباد انہیں ایک خاص مقام سے آگے خود سے الگ کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
پاکستان کو جی ایس پی پلس سٹیٹس کے تحت یورپی منڈیوں تک ترجیحی رسائی حاصل ہے جس کی تجدید 2024 میں ہوگی۔
لہٰذا پاکستان کا امریکہ اور چین کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کا موقف اپنی نئی خارجہ پالیسی کے نقطۂ نظر کے بنیادی اصول کے طور پر کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ ایک بڑھتے ہوئے پولرائزڈ عالمی ماحول میں، جس کی نشاندہی عظیم طاقتوں کی دشمنی سے ہوتی ہے، پاکستان جیسی ریاستیں وقت آنے پر پل کی بجائے سینڈوچ بن جاتی ہیں۔
مغرب اور روس کے درمیان شدید تناؤ اور کشیدگی کے ماحول میں پاکستان کا روس کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے اور دنیا کو روس کی طرف جھکاؤ کا عندیہ دینا ایک مشکل اور گمبھیر فیصلہ دکھائی دیتا ہے۔
23 فروری کو امریکہ نے منی لانڈرنگ کی خلاف ورزیوں پر ملک کے دوسرے بڑے بینک نیشنل بینک آف پاکستان (این بی پی) پر ساڑھے پانچ کروڑ ڈالر کا مالی جرمانہ عائد کیا۔ خان کے دورہ ماسکو پر اپنی بظاہر ناراضگی کا اظہار کرنے کے لیے امریکہ نے ان کے پاکستان واپس آنے سے پہلے ہی جرمانہ عائد کر دیا۔ مغرب کے لیے پاکستان کی غیرجانبداری روسی جارحیت کی خاموش تائید تھی۔ امریکہ کی طرف سے جرمانے کا اقدام بھی ناراضگی کے خاموش اظہار کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔
بیجنگ کی حمایت میں فروغ پاتا ہوا ماسکو اور اسلام آباد کا رشتہ نئی دہلی کو بے چین کر دے گا، اسے مزید امریکہ کی طرف دھکیل دے گا اور اسے QUAD میں اپنی موجودگی پر مزید یکسوئی اختیار کرنے پر مجبور کر دے گا۔ بھارت جتنا امریکہ کی طرف جھکے گا، روس اتنا ہی پاکستان کی طرف بڑھے گا۔ اب تک روس نے بھارت اور پاکستان کے درمیان اپنے تعلقات میں توازن برقرار رکھا ہوا ہے۔
چونکہ عالمی جغرافیائی سیاست ایک تبدیلی سے گزر رہی ہے جو کہ عالمی طاقتوں کی دشمنی پر منحصر ہوتی ہے، جنوبی ایشیا ایک ایسے موڑ پر ہے جہاں پرانے دشمن (روس اور پاکستان) دوست بن رہے ہیں جب کہ پرانے دوست (روس اور بھارت) اپنے آپ کو حریف کیمپوں میں دیکھ رہے ہیں۔ یوکرین کے مسئلے پر روس اور مغرب کے مابین کشیدگی خطے میں اتحاد سازی کے عمل کو تیز اور مستحکم کرے گی۔
عمران خان کا مغربی دباؤ کے باوجود روس کا دورہ جاری رکھنے کا فیصلہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بڑھتے ہوئے مغرب مخالف تصور کو اور روس چین کیمپ کی طرف بڑھنے کی نشاندہی کو ظاہر کرتا ہے۔ دوسری طرف بھارت مغرب کا حامی اور چین مخالف ہے لیکن روس کے حوالے سے دوراہے پر کھڑا ہے۔
مصنف ایس راجارتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز، سنگاپور میں ریسرچ فیلو ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔