سڑکوں پر نہیں پارلیمان میں سیاسی طاقت کا مظاہرہ کریں: عدالت

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت سڑکوں پر اپنے کارکنوں کے ذریعے طاقت کا مظاہرہ نہ کرے بلکہ سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی طاقت پارلیمان میں ظاہر کرے۔

عدم اعتماد کے معاملے پر سیاسی جماعتوں کے ممکنہ تصادم پر سپریم کورٹ بار کی درخواست پر پیر کو سماعت ہوئی (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت سڑکوں پر اپنے کارکنوں کے ذریعے طاقت کا مظاہرہ نہ کرے بلکہ سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی طاقت پارلیمان میں ظاہر کرے۔

عدم اعتماد کے معاملے پر سیاسی جماعتوں کے ممکنہ تصادم پر سپریم کورٹ بار کی درخواست پر پیر کو سماعت ہوئی جس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ یہ محض قانونی مسئلہ نہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ’یہ سیاسی مسئلہ بھی ہے اس میں انا نہیں ہونی چاہیے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ووٹ ڈالنے کے لیے جتھے سے گزر کر آنا جانا نہیں ہو سکتا یہ ہم نہیں ہونے دیں گے۔‘

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’پولیس کسی رکن اسمبلی پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتی۔ رکن اسمبلی قانون توڑے گا تو پولیس بھی ایکشن لے گی۔‘

’عدالت نے سیاسی قیادت کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنا ہے تاکہ جمہوریت چلتی رہے۔ حساس وقت میں مصلحت کے لیے کیس سن رہے ہیں۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ کوشش کریں ڈی چوک پر جلسہ نہ ہو، اکھٹے بیٹھ کر اتفاق رائے پیدا کریں۔ جو بھی احتجاج اور جلسے ہوں ضلعی انتظامیہ کی مشاورت سے ہوں۔

عدالت کہا کہ ایک جماعت جہاں جلسہ کر رہی ہو وہاں دوسری کو اجازت نہیں ہوگا، دونوں فریقین کے جلسوں کا وقت الگ ہو تاکہ تصادم نہ ہوسکے۔

عدالت نے واضح کیا کہ ریفرنس پر حکومتی اتحادیوں کو نوٹس نہیں کر رہے، تمام جماعتیں تحریری طور پر اپنا موقف دیں گی۔

اس کے علاوہ عدالت نے یہ بھی کہا کہ تمام فریقین تحمل کا مظاہرہ کریں، سنجیدگی، احترام کو تمام فریقین برقرار رکھیں۔ اشتعال انگیز تقریریں نہ کی جائیں۔‘

چیف جسٹس نے 24 مارچ سے صدارتی ریفرنس پر سماعت کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا جائے گا۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اس عمل کو خوش اسلوبی سے مکمل کرنا ہے۔ جہاں الیکشن ہوتا ہے وہاں ہم رک جاتے ہیں۔ ہمیں مواد دیکھا دیں۔ اگر تمام سیاسی جماعتیں متفق ہوئیں تو کوڈ آف کنڈیکٹ بنا لیں گے۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سندھ ہاؤس پر حملے کا کسی صورت دفاع نہیں کرسکتا۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم کو عدالت کی تشویش سے آگاہ کیا ہے جس پر ان کا کہنا ہے کہ پرتشدد مظاہرے کسی صورت برداشت نہیں، سندھ ہاؤس جیسا واقعہ دوبارہ نہیں ہونا چاہیے۔

اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ وہ کسی سیاسی جماعت کی وکالت نہیں کریں گے اور اپنے عہدے کے تقدس کا ہمیشہ خیال رکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’عدم اعتماد کے معاملے پر ممکنہ انتشار پر سپریم کورٹ بار کی استدعا سے کوئی اختلاف نہیں۔ آرٹیکل 254 کو شاید غلط انداز میں لیا گیا ہے۔‘

حکومت کی جانب سے اسمبلی اجلاس کے موقع پر لیے جانے والے اقدامات

اسمبلی اجلاس کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم سے گفتگو کے بعد عدالت کو کچھ باتیں واضح کرنا چاہتا ہوں۔

اٹارنی جرنل نے کہا کہ اسمبلی اجلاس کے موقع پر کوئی جتھہ اسمبلی کے باہر نہیں ہو گا اور کسی رکن اسمبلی کو ہجوم کے ذریعے نہیں روکا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ کئی سیاسی جماعتوں نے بیانات دیے ہیں جبکہ پولیس اور متعلقہ اداروں کو احکامات جاری کیے جا رہے ہیں کہ عوام کو اسمبلی اجلاس کے موقع پر ریڈ زون میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہو گی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کوئی رکن اجلاس میں نہ آنا چاہے تو انہیں زبردستی نہیں لایا جائے گا جبکہ پارٹی سربراہ آرٹیکل 63 اے کے تحت اپنا اختیار استعمال کر سکتا ہے۔

اس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کوئی جماعت اجلاس میں مداخلت سے روکے اور ان کا ممبر اسمبلی چلا جائے تو کیا ہو گا؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے والوں کو روکا نہیں جاسکتا۔ اس نقطے پر حکومت سے ہدایات کی بھی ضرورت نہیں۔

’پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے پر آرٹیکل 63 اے کی کارروائی ہو گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اٹارنی جنرل نے کہا کہ بطور اٹارنی جنرل کسی اپوزیشن جماعت پر بھی الزام نہیں لگاؤں گا۔ آئینی تقاضوں کو پورا کرنے نہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’صدارتی ریفرنس کی وجہ سے اسمبلی کارروائی متاثر نہیں ہوگی، کسی کو ووٹ کا حق استعمال کرنے سے روکا نہیں جاسکتا لیکن اس کا ووٹ شمار ہونے پر ریفرنس میں سوال اٹھایا ہے۔‘

واضح رہے کہ یہ درخواست تو عدم اعتماد کے حوالے ممکنہ تصادم پر تھی لیکن پیر کو دائر ہونے والی صدارتی ریفرنس کا معاملہ بھی اس میں شامل کر دیا گیا اور اٹارنی جنرل نے اس حوالے سے بھی کچھ نکات واضح کیے۔

صدارتی ریفرنس کے نکات

اٹارنی جنرل نے ریفرنس کے سوالات پر کہا کہ ووٹ ڈالنے کے بعد کیا ہو گا یہ ریفرنس میں اصل سوال ہے۔

آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس میں مزید کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 63 اے کی کون سی تشریح قابل قبول ہے۔

’کیا پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے سے نہیں روکا جا سکتا۔ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ شمار نہیں ہوگا، ایسا کرنے والا تاحیات ناہل ہوگا، پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والا رکن صادق اور امین نہیں رہے گا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے مزید اقدامات کیا ہو سکتے ہیں، آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا۔‘

سماعت میں مزید کیا ہوا؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سندھ ہاؤس واقعے پر اٹارنی جنرل کا موقف خوش آئند ہے۔ ’توقع ہے حکومت بھی سندھ ہاؤس واقعے کی مذمت کرے گی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’تمام سیاسی جماعتیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرتی ہیں لیکن بعض غیر ذمہ داران سیاست میں آکر ایسی کوئی حرکت کرسکتے ہیں۔‘

پیر کو عدالت کا بینچ نمبر ون کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ تمام نشستوں پر وکلا اور سیاسی جماعتوں کے رہنما تشریف فرما تھے۔ جبکہ کچھ وکلا اور سیاسی رہنما جنہیں نشست نہیں ملی وہ کھڑے رہے۔

جج صاحبان جیسے ہی کمرہ عدالت میں آئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ کمرہ عدالت میں بہت رش ہے۔ بعض افراد کو کمرہ عدالت سے باہر جانا چاہیے۔ ممکن ہے تو گیلری میں لوگوں کو بھیجوا دیں۔

انہوں نے کہا کہ ’باہر بھی سپیکر لگے ہوئے ہیں وہاں سماعت سن لیں۔ کرسیوں پر بیٹھے افراد اندر رہیں باقی باہر چلے جائیں۔‘

اس کے بعد کمرہ عدالت سے کچھ لوگ باہر راہداری میں سپیکر والی جگہ پر چلے گئے۔

کمرہ عدالت میں متحدہ اپوزیشن کے تمام رہنما شہباز شریف، بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمن دیگر پارٹی رہنماؤں کے ساتھ موجود تھے اور پہلی نشستوں پر براجمان تھے۔

پیپلز پارٹی کی نمائندگی کے لیے فاروق ایچ نائیک، ن لیگ کی نمائندگی مخدوم علی خان، تحریک انصاف کی طرف سے بیرسٹر علی ظفر جبکہ جے یو آئی ایف کی نمائندگی کامران مرتضی نے کی۔

حکومت کی نمائندگی کے لیے اٹارنی جنرل خالد جاوید بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ سپریم کورٹ بار کی نمائندگی منصور عثمان نے کی۔

دو گھنٹے جاری رہنے والی سماعت کے آخری لمحات میں حکومتی وزرا فواد چوہدری اور حماد اظہر بھی کمرہ عدالت میں تشریف لے آئے۔ ان کے کمرہ عدالت آنے پر اپوزیشن اراکین بلاول بھٹو اور رانا ثنااللہ نے ان کی جانب دیکھا۔

 کمرہ عدالت کھچا کھچ بھرا ہونے کی وجہ سے وفاقی وزرا کو بیٹھنے کی جگہ نہ ملی۔ وہ بھی اپوزیشن رہنماؤں کو معنی خیز نظروں سے دیکھتے رہے۔

سماعت کے آغاز پر سپریم کورٹ بار کے وکیل نے کہا کہ عدالت نے گذشتہ حکم میں کہا تھا کہ سندھ ہاؤس پر حملے کے علاوہ کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ سپیکر سے 25 مارچ کو اجلاس طلب کرنے کا کہا ہے۔ آرٹیکل 95 کے تحت 14 دن میں اجلاس بلانا لازم ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ کسی ایونٹ کی وجہ کوئی ووٹ ڈالنے سے محروم نہ ہو۔ ووٹ ڈالنا ارکان کا آئینی حق ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت ابھی تک اسمبلی کارروائی میں مداخلت پر قائل نہیں ہوئی۔ عدالت صرف یہ چاہتی ہے کہ کسی کے ووٹ کا حق متاثر نہ ہو۔ اس لیے یہ تمام نکات سپیکر کے سامنے اٹھائے جاسکتے ہیں۔

فاروق ایچ نائیک نے اسمبلی اجلاس طلب کرنے کا نوٹس عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ سپیکر نے آئین کی خلاف ورزی کرکے آئین شکنی کی۔

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جن پر آرٹیکل چھ لگا ہوا ہے پہلے ان پر عمل کروا لیں۔ آرٹیکل چھ سے متعلق فاروق ایچ نائیک کی بات پر چیف جسٹس مسکرا دیے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 17 سیاسی جماعتیں بنانے کے حوالے سے ہے۔ آرٹیکل 17 کے تحت حقوق سیاسی جماعت کے ہوتے ہیں جبکہ آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ کا حق سیاسی جماعت کا ہوتا ہے۔

’آرٹیکل 95 دو کے تحت رکن کے انفرادی ووٹ کی حثیت نہیں۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کیس میں عدالت ایسی آبزرویشن پہلے دے چکی ہے۔ سیاسی جماعت میں شمولیت کے بعد اجتماعی حق تصور کیا جاتا ہے۔‘

اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’بار چاہتی ہے کہ ارکان جس کو چاہے ووٹ ڈالیں لیکن بار اگر زیادہ تفصیلات میں گئی تو جسٹس منیب اختر کی ابزرویشن رکاوٹ بنے گی۔‘

انہوں نے کہا کہ سوال یہی ہے کہ ذاتی چوائس پارٹی موقف سے مختلف ہو سکتی یا نہیں؟ اس پر بار کے وکیل نے کہا کہ تمام ارکان اسمبلی کو آزادانہ طور پر ووٹ ڈالنے کا حق ہونا چاہیے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ آئین کی کس شق کے تحت رکن اسمبلی آزادی سے ووٹ ڈال سکتا ہے؟ وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 91 کے تحت ارکان سپیکر اور دیگر عہدیداروں کا انتحاب کرتے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے مزید کہا کہ آرٹیکل 66 کے تحت ووٹ کا حق کیسے مل گیا؟ آرٹیکل 66 تو پارلیمانی کارروائی کو تحفظ دیتا ہے۔ آرٹیکل 63 اے کے تحت تو رکن کے ووٹ کا کیس عدالت آ سکتا ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ووٹ کا حق کسی رکن کا absolute نہیں ہوتا۔ ساتھ ہی انہوں نے بار کے وکیل سے کہا کہ آپ تو بار کے وکیل ہیں آپ کا اس عمل سے کیا تعلق؟ بار ایسویشن عوامی حقوق کی بات کرے۔ تحریک عدم اعتماد سے بار کو کیا مسئلہ ہے؟

جس پر بار کے وکیل نے جواباً کہا کہ وکیل تحریک عدم اعتماد بھی عوامی اہمیت کا معاملہ ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست