بھارت: کشمیری مسلمان کو کمرا نہ دینے پر ہوٹل کے خلاف کارروائی

بھارت کے ملٹی نیشنل روم رینٹل سروس ’اویو رومز‘ نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کشمیری مسلمان شخص کو کمرا نہ دینے والے ہوٹل کو اپنے پلیٹ فارم سے ہٹاتے ہوئے ایک بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ کمپنی اس واقعے پر’حیران‘ ہے۔

 15 مارچ 2022 کو بھارتی پولیس کے اہلکار بنگلور  میں ایک اسکول کے باہر  پہرہ دے رہے ہیں۔ بھارتی پولیس نے اس دعوے سے انکار کیا ہے کہ انہوں نے کشمیری مسلمانوں کو ہوٹل میں کمرا  نہ دینے کی کوئی ہدایت کی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

بھارت میں ایک وائرل ویڈیو کی وجہ سے سوشل میڈیا پر کافی اشتعال پیدا ہو گیا ہے، جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک کشمیری مسلمان شخص کو بکنگ کی تفصیلات اور شناختی ثبوت ہونے کے باوجود دارالحکومت دہلی کے ایک ہوٹل میں کمرا دینے انکار کردیا گیا۔

اس واقعے کی تاریخ معلوم نہیں لیکن جموں و کشمیر سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے ترجمان ناصر کہویہامی نے گذشتہ بدھ کو ویڈیو ٹوئٹر پر شیئر کی۔

انہوں نے کہا:’دہلی کے ہوٹل نے شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات فراہم کرنے کے باوجود کشمیری شخص کو رہائش دینے سے انکار کیا ہے۔ کیا کشمیری ہونا جرم ہے؟‘

بھارت کے ملٹی نیشنل روم رینٹل سروس ’اویو رومز‘ نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے اس ہوٹل کو اپنے پلیٹ فارم سے ہٹاتے ہوئے ایک بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ کمپنی اس واقعے پر’حیران‘ ہے۔

دو منٹ دورانیے کی اس ویڈیو میں ایک نامعلوم کشمیری شخص کو سنا جاسکتا ہے جو شمال مغربی دہلی کے علاقے جہانگیر پوری میں واقع ہوٹل ’پلیزینٹ اِن‘ کے استقبالیہ پر موجود خاتون سے کہہ رہے ہیں کہ بکنگ کروانے کے باوجود کمرا دینے سے انکار کیوں کیا جا رہا ہے؟

ویڈیو میں وہ شخص خاتون کو بتاتے ہیں کہ انہوں نے اویو رومز کی ویب سائٹ کے ذریعے ایک کمرہ بک کیا تھا اور یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ انہوں نے خاتون کو اپنے شناختی کاغذات فراہم کیے۔

اس کے بعد استقبالیہ پر موجود خاتون ہوٹل کے مالک کو کال کرتی ہیں اور اس شخص کو مطلع کرتی ہیں کہ دہلی پولیس نے انہیں جموں و کشمیر کی شناخت رکھنے والے کسی بھی شخص کو رہائش نہ دینے کا کہا ہے۔

پولیس نے ایک ٹویٹ میں اس دعوے کی تردید کی اور کہا کہ جان بوجھ کر پولیس کو غلط انداز میں پیش کرنے سے تعزیری کارروائی کی جاسکتی ہے۔ پولیس نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے رہائش سے انکار کرنے کی ’ایسی کوئی ہدایت‘ نہیں دی۔

دوسری جانب اویو رومز نے اپنے بیان میں کہا: ’ہمارے کمرے اور ہمارے دل ہمیشہ ہر کسی کے لیے کھلے ہیں۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر ہم کبھی سمجھوتہ کریں گے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ کمپنی دیکھے گی کہ ’ہوٹل کیوں چیک اِن سے انکار کرنے پر مجبور ہوا۔‘

دی انڈپینڈنٹ نے ہوٹل سے رابطہ کیا اور اسے بتایا گیا کہ انہیں اویو پلیٹ فارم سے ہٹا دیا گیا ہے۔

دریں اثنا سوشل میڈیا صارفین نے کشمیری شخص کو کمرے سے انکار کرنے پر ہوٹل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

ایک کشمیری سیاست دان تنویر صادق نے ٹوئٹر پر سوال کیا کہ: ’دہلی کے علاقے جہانگیر پوری کے ایک ہوٹل میں ایک کشمیری کو رہائش دینے سے انکار کردیا گیا ہے۔ اس کے پاس درست شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات تھیں۔ کیا یہ(فلم) دی کشمیر فائلز نشر ہونے کے بعد کے وسیع اثرات کا آغاز ہے؟‘

تنویر صادق کشمیر کی ہندو اقلیتی برادری کشمیری پنڈتوں پر مبنی حالیہ متنازع فلم ’کشمیر فائلز‘ اور 1990 کی دہائی میں بغاوت کے دوران انہیں درپیش مظالم کا ذکر کر رہے تھے۔

فلم کے ناقدین کا دعویٰ ہے کہ فلم میں ہر کشمیری مسلمان کو’دہشت گرد‘ کے طور پر دکھایا گیا ہے اور یہ بھی الزام لگایا ہے کہ اس فلم میں علاقے کی تصویر کشی میں حقائق کی کئی غلطیاں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مشرقی مغربی بنگال ریاست سے تعلق رکھنے والی ایک سیاست دان مہوا موئترا نے کہا: ’مجھے پوری امید ہے کہ (دہلی پولیس) اور (کمشنر آف پولیس، دہلی) جلد از جلد مناسب کارروائی کریں گے۔‘

بھارتی اخبار دی ہندو نے بتایا کہ 2019 میں جنوبی دہلی کے علاقے جسولا وہار میں اویو پلیٹ فارم سے رجسٹرڈ ایک ہوٹل میں 24 سالہ کشمیری ڈاکٹر کو کمرا دینے سے انکار کردیا گیا تھا۔ اویو رومز نے اس وقت ہوٹل منیجر کے خلاف تادیبی کارروائی کا وعدہ کیا تھا۔

بھارت کے متعدد شہروں میں کشمیری مسلمانوں کو کرائے کے گھر یا اپنے لیے عارضی رہائش تلاش کرتے ہوئے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کشمیر کا علاقہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری جیوپولیٹیکل تنازعے کا مرکز ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کے ان علاقوں میں سے ایک ہے جہاں سب سے زیادہ فوج تعینات ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا