’کام کی بھیک مانگتی ہوں‘: بھارتی قید میں موجود کشمیریوں کے اہلخانہ مجبور

پانچ بچوں کی والدہ تسلیمہ نے اپنے شوہر گلزار احمد بھٹ کو کئی سالوں سے نہیں دیکھا۔ انہوں نے بتایا: ’میں اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے کام کی بھیک مانگتی ہوں۔‘

ماضی میں بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں ہفتہ وار عوامی احتجاج معمول ہوتا تھا لیکن نئی دہلی کے اس خطے پر براہ راست حکمرانی کے دو سال بعد مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز کو دیے گئے صوابدیدی اختیارات، ان کی جانب سے لاٹھی چارج، فون چھیننے، گرفتاریوں اور دھمکیوں کی وجہ سے وہ اختلاف رائے کا اظہار کرنے سے خوفزدہ ہو گئے ہیں۔

جموں و کشمیر کی جزوی خودمختاری کے خاتمے سے ایک ہفتہ قبل مقامی ردعمل کو روکنے کے لیے جب نئے بھارتی فوجی دستوں کی تعیناتی اور فورسز کی جانب سے بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کیا گیا تو رفیق (فرضی نام) بھی ان  ہزاروں کشمیریوں میں سے ایک تھے، جنہیں حراست میں لیا گیا تھا۔

رفیق کا خیال ہے کہ انہیں اس لیے گرفتار کیا گیا کیونکہ ماضی میں انہوں نے ’ناانصافیوں کے خلاف احتجاج‘ میں حصہ لیا تھا۔

ایک مشکل سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنے کے بعد 26 سالہ رفیق کا کہنا ہے کہ وہ اب ایک ’ٹوٹے ہوئے شخص‘ ہیں۔

درجنوں دیگر کشمیریوں نے بھی ایسے ہی حالات کے بارے میں خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے۔

رفیق کا کہنا ہے کہ انہیں اور دیگر 30 کشمیریوں کو فوجی طیارے میں سوار کروا کے گھر سے سینکڑوں میل دور بھارتی جیل میں قید کیا گیا، جہاں ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور انہیں ڈرایا گیا۔

انہوں نے بتایا: ’میرے سیل میں چھ ماہ تک مجھ پر تیز روشنی رکھی گئی تاکہ میں سو نہ سکوں، میرے لیے یہ سوچنا مشکل تھا کہ میں زندہ باہر آؤں گا۔‘

کم از کم رفیق کو بالآخر رہا کر دیا گیا لیکن انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ کئی دیگر کشمیری اب تک بھارت کی بدنام زمانہ جیلوں میں قید ہیں۔

پانچ بچوں کی ماں تسلیمہ نے اپنے شوہر گلزار احمد بھٹ کو کئی سالوں سے نہیں دیکھا۔

ابتدائی طور پر جب بھارتی پولیس اور فوجیوں نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا تو بھٹ باہر گھر سے باہر تھے۔ چنانچہ فوج نے ان کے 23 سالہ بھتیجے کو اس وقت تک قید کیے رکھا جب تک کہ بھٹ نے خود کو فورسز کے حوالے نہیں کر دیا۔

آنسو بہاتے ہوئے تسلیمہ نے اے ایف پی کو بتایا: ’میں اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے کام کی بھیک مانگتی ہوں۔‘

تشدد کشمیریوں کی آواز دبانے کا بھارتی ٹول

بھارت نے کئی دہائیوں سے کشمیر کے متنازع خطے میں اپنے پانچ لاکھ سے زائد فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔

بھارتی فوجیں مکمل آزادی یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کرنے والے باغیوں سے لڑ رہی ہیں۔

امن قائم کرنے کے نام پر ہندو قوم پرست بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو خطے کی جزوی خود مختاری کی ضمانت دینے والی شق کو ملکی آئین سے نکال دیا تھا۔

کشمیر میں اب مقامی منتخب حکومت نہیں ہے اور ان پر نئی دہلی کے مقرر کردہ لیفٹیننٹ گورنر کی حکومت ہے۔

دو سال قبل سرکاری طور پر تصدیق شدہ گرفتار کیے گئے پانچ ہزار اور بعد میں گرفتار کیے گئے بے شمار لوگوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کسی الزام کے بغیر اور مقدمہ چلائے بغیر دو سال حراست میں رکھا گیا۔

انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس سے وابستہ جولیٹ روسلوٹ نے اے ایف پی کو بتایا: ’زیادہ تر کیسز میں ان گرفتاریوں کو مخالف آوازوں کو دبانے اور خود ساختہ سنسرشپ کو لاگو کرنے کے لیے ایک ٹول کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔‘

بھارت نے مبینہ طور پر دہشت گردی کے خلاف متنازع قانون کو بھی اس مقصد کے لیے بھرپور استعمال کیا ہے، جس کے تحت لوگوں کو بغیر کسی مقدمے کے غیرمعینہ مدت تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔

بھارت سے یکجہتی اب ممکن نہیں

بھارتی حکام کی جانب سے مقامی صحافیوں کی مزید جانچ پڑتال جاری ہے۔ فوٹوگرافروں پر حملے کیے گئے اور غیر ملکی رپورٹرز کو مؤثر طریقے سے علاقے سے بے دخل کر دیا گیا۔

جب دکانداروں نے رواں ماہ احتجاج کی کوشش کی تو پولیس نے تالے توڑ کر انہیں کاروبار کھولنے پر مجبور کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نوجوان کہتے ہیں کہ اگر ان کے فون پر وٹس ایپ یا سگنل جیسی ’ممنوعہ‘ ایپس انسٹال ہوں تو ان سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے اور بعض اوقات چوکیوں پر مارا پیٹا جاتا ہے۔

ایک درجن سے زائد سرکاری ملازمین کو حال ہی میں ’ملک دشمن سرگرمیوں‘ یا سوشل میڈیا پوسٹس پر تنقید کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے۔

گذشتہ مہینے پولیس کو کہا گیا تھا کہ وہ ماضی میں احتجاج، پتھر پھینکنے یا ’ریاست کی سلامتی‘ کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث افراد کی سرکاری ملازمتوں اور پاسپورٹ کے لیے سکیورٹی کلیئرنس کی درخواستوں کو مسترد کردے۔

رشتہ دار اور یہاں تک کہ ان لوگوں کے پڑوسی جنہوں نے ماضی میں احتجاج کیا ہے یا جن پر صرف ایسا کرنے کا شبہ ہے، پولیس کی طرف سے باقاعدہ دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ تحریری طور پر وعدہ کریں کہ وہ آئندہ اس سے باز رہیں گے۔

ایک سال جیل میں گزارنے والے ایک نوجوان، جن کے والد کو اس طرح کے ایک معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے مجبور کیا گیا تھا، نے بتایا: ’میں اب کچھ کہنے یا اپنا منہ کھولنے سے پہلے اپنے خاندان اور رشتے داروں کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’اس طرح کے جبر نے ہمیں الگ کر دیا ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ یکجہتی اب ممکن نہیں ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا