ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک قانونی جنگ لڑنے والے کشمیری شہری کو دہشت گردی کے الزامات سے بری کر دیا گیا اور رہا ہونے کے بعد آخر کار وہ اپنے گھر پہنچ گئے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے رہائشی بشیر احمد بابا کو 2010 میں دہشت گردی کے سخت قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔
متنازع خطے کے سب سے بڑے شہر اور گرمائی درالحکومت سری نگر سے تعلق رکھنے والے 44 سالہ سماجی کارکن کو بھارت کی مغربی ریاست گجرات سے اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ ایک ورک شاپ میں شرکت کے لیے وڈوڈرا شہر گئے ہوئے تھے۔
بھارتی ویب سائٹ ’نیوز کلک‘ کی رپورٹ کے مطابق بشیر احمد میڈیکل کیمپ لگانے اور خصوصاً کلیفٹ پیلٹ (ایک پیدائشی بیماری جس میں تالو کٹا ہوا ہوتا ہے) کے شکار بچوں کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم سے وابستہ تھے۔
گجرات میں قیام کے ایک ماہ بعد بشیر احمد کو بھارت کے انسداد دہشت گردی سکواڈ نے گرفتار کر لیا۔
ان پر کشمیری عسکریت پسند گروپ حزب المجاہدین کے لیے کام کرنے اور گجرات کے نوجوانوں کو ’دہشت گردی کی تربیت‘ فراہم کرنے کے لیے ایک نیٹ ورک قائم کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔
بشیر احمد کو بھارت کے انتہائی متنازع قانون ’اَن لا فُل ایکٹی ویٹیز پرووینشن ایکٹ‘ (یو اے پی اے) کے تحت گرفتار کیا گیا۔
سخت بحث و مباحثے کے بعد پاس کیے گئے اس قانون کے تحت سکیورٹی حکام کو بغیر کسی الزام کے کسی بھی مشتبہ شخص کو 180 دن حراست میں رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔
بڑے پیمانے پر انسداد دہشت گردی کا قانون کے طور پر تصور کیے جانے والے اس ایکٹ کو نریندر مودی حکومت نے 2019 میں مزید سخت بنا دیا تھا۔
بشیر احمد کے وکلا ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک یہ دلائل دیتے رہے کہ وہ گجرات میں کینسر کے حوالے سے ایک ورک شاپ میں شریک تھے جس کا مقصد وادی کشمیر میں مریضوں کی بہتر خدمت کرنا تھا۔
تاہم گجرات پولیس کا دعویٰ تھا کہ وہ اپنے قیام کے دوران فون کے ذریعے دہشت گرد گروہ کے سربراہ سے رابطے میں تھے۔
A Kashmiri man Basir Ahmed Baba walks free after 12 years of wrongful imprisonment of India. Baba was arrested by Gujrat ATS in 2010 & after approx 12 years a lower court in Surat & Gujarat acquitted of all charges against Baba including UAPA.#islamophobiainindia pic.twitter.com/5MOG9bdDyP
— Danish Imam (دانش امام) (@iamdanishimam) July 4, 2021
بشیر احمد کے وکیل خالد شیخ نے ’دی انڈین ایکسپریس‘ کو بتایا: ’اے ٹی ایس (انسداد دہشت گردی سکواڈ) نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے موکل نے پاکستان میں اپنے حزب المجاہدین کے ہینڈلرز کو ای میل بھیجنے کے کیمپ کے ایک ڈاکٹر کا لیپ ٹاپ استعمال کیا تھا۔‘
وکیل کا مزید کہنا تھا کہ ’انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ بشیر احمد کو مشکوک فون کالز کرتے اور دن میں متعدد بار کھانا کھانے یا نماز پڑھنے کے بہانے کیمپ سے باہر جاتے دیکھا گیا۔‘
ایک دہائی کے بعد گجرات کے ضلع آنند کی ایک ایڈیشنل سیشن کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے یہ ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ بشیر احمد ’دہشت گرد نیٹ ورک‘ قائم کرنے کے لیے ریاست میں موجود تھے یا انہیں اس مبینہ جرم کے لیے کوئی مالی مدد ملی تھی۔
عدالت نے اپنے حکم میں کہا: ’استغاثہ یہ بھی ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہا کہ وہ حزب المجاہدین کے مطلوب کمانڈروں سے رابطے میں تھے۔‘
رہائی کے بعد دی انڈین ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے بشیر احمد نے کہا کہ انہوں نے اپنے بری ہونے کی امید کبھی نہیں چھوڑی تھی۔
انہوں نے کہا: ’مجھے معلوم تھا کہ مجھے ایک دن ان الزامات سے باعزت بری کیا جائے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ جیل میں رہتے ہوئے بہت سارے قیمتی سال ضائع ہونے اور خاندان کے متعدد ارکان کی وفات کے باوجود انہیں اپنے بری ہونے کی پوری امید تھی۔
بشیر احمد نے یہ بھی بتایا کہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہتے ہوئے انہوں نے اپنی تعلیم جاری رکھی اور تین ماسٹرز ڈگریاں مکمل کیں۔
’میں نے جیل میں اپنا بیشتر وقت تعلیم حاصل کرنے میں صرف کیا۔ مجھے یقین تھا کہ ایک دن میں بے قصور ثابت ہوجاؤں گا اور رہا کردیا جاؤں گا۔‘
© The Independent