بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں قربانی پر پابندی اور حکومت کا یوٹرن

بھارتی حکومت کی ہدایات پر مقامی انتظامیہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک حکم نامے میں خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت کارروائی کا انتباہ دیا گیا ہے۔

بھارتی ریاست کرناٹک کی ریاستی اسمبلی کے باہر سال 2010 میں ’گائے کی قربانی پر پابندی کے قانون‘ کے حق میں آویزاں بینزر کے سامنے کھڑا ایک پولیس اہلکار(فائل فوٹو: اے ایف پی)

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عید الاضحیٰ کے موقع پر 'گائے، بچھڑوں، اونٹوں اور دوسرے جانوروں' کو ذبح کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

بھارتی حکومت کی ہدایات پر مقامی انتظامیہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک حکم نامے میں خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت کارروائی کا انتباہ دیا گیا ہے۔

کشمیر کے محکمہ اینیمل/شیپ ہسبنڈری اینڈ فشریز کے ڈائریکٹر پلاننگ جی ایل شرما کی جانب سے جاری پابندی کے حکم نامے کے سجبیکٹ (عنوان) میں لکھا ہے: 'بقر عید کے موقع پر گائیں/بچھڑوں، اونٹوں اور دوسرے جانوروں کی غیر قانونی ہلاکتیں/ذبح روکنا اور جانوروں کی ٹرانسپورٹیشن کے متعلق قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنا۔'

سرکاری ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکم نامے میں 'دوسرے جانوروں' سے مراد گائے کی قبیل کے تمام جانور ہیں۔

یہ پوچھے جانے پر کہ اس حکم نامے سے تو لوگوں میں کنفیوژن پیدا ہوا ہے کہ شاید عید الاضحیٰ کے موقع پر سبھی جانوروں کی قربانی پر پابندی عائد کی گئی ہے تو ان کا کہنا تھا: 'ہم کنفیوژن جلد دور کریں گے۔'

بعد ازاں کشمیر انتظامیہ نے چوطرفہ تنقید کے بعد جمعے کی شام دیر گئے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ اس نے جانوروں کی قربانی کے متعلق کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا ہے۔

مسلم اکثریتی خطہ کشمیر میں بڑے جانوروں کے ذبح پر مکمل پابندی سے لوگوں میں شدید ناراضگی پیدا ہوئی ہے اور اکثر لوگوں کا الزام ہے کہ بھارت کشمیری مسلمانوں کی مذہبی آزادی سلب کر رہا ہے۔

کشمیری مورخین کا ماننا ہے کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ عید الاضحیٰ کے موقع پر تمام بڑے جانوروں کی قربانی پر پابندی لگائی گئی اور خلاف ورزی کرنے پر سخت سزا کی دھمکی دی گئی۔

'لوگ مشتعل ہو سکتے ہیں'

کشمیر کے مفتی اعظم مفتی ناصر الاسلام نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بڑے جانوروں کی قربانی پر پابندی عائد کرنے کے غلط نتائج برآمد ہو سکتے ہیں اور لوگ مشتعل بھی ہو سکتے ہیں۔

'اگر لوگوں سے بڑے جانوروں کی قربانی کے متعلق اپیل کی جاتی تو شاید لوگ مانتے کہ کسی ایک مذہب کے پیروکاروں کے جذبات مجروح ہوں گے لہٰذا ہم احتیاط کریں گے، لیکن جس طرح سے حکم نامہ جاری ہوا ہے اس سے لوگوں میں ایک غلط پیغام چلا گیا ہے۔'

مفتی اعظم کہتے ہیں کہ کشمیر میں حکومت کی جانب سے آج تک ایسا کوئی حکم نامہ جاری نہیں ہوا تھا۔

'میں نے اپنی زندگی کے 30 برس مشرق وسطیٰ اور امریکہ میں گزارے، میں اس وقت 55 برس کا ہوں لیکن میری نظروں سے آج تک ایسا کوئی حکم نامہ نہیں گزرا۔

'حکومت کو چاہیے تھا کہ اس طرح کا حکم نامہ جاری کرنے سے پہلے لوگوں خاص کر مذہبی رہنماؤں، سول سوسائٹی اراکین کو اعتماد میں لے لیتی اور اس کے متعلق بات چیت کرتی۔'

مفتی ناصر الاسلام نے بتایا کہ میں نے پہلے ہی لوگوں سے قربانی کے جانوروں کو کھلے عام سڑکوں کی بجائے ذبح خانوں اور مخصوص جگہوں پر ذبح کرنے کی اپیل کر رکھی ہے۔

'اب میں حکومت سے بھی اپیل کروں گا کہ وہ پابندی والے حکم نامے پر نظر ثانی کرے۔ ہم علما بھی مل بیٹھ کر دیکھیں گے کہ اس نازک صورتحال کا کیا حل نکالا جا سکتا ہے۔'

جانوروں کے ذبح پر پابندی کی تاریخ

معروف کشمیری مورخ ظریف احمد ظریف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سنہ 1947 میں مہاراجہ ہری سنگھ کے بھارت کے ساتھ مشروط الحاق کے بعد ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ عید الاضحیٰ کے موقع پر تمام بڑے جانوروں کی قربانی پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

'گائے کی قربانی پر پابندی عائد کرنا قابل فہم ہے لیکن اونٹ، بیل وغیرہ کی قربانی پر پابندی عائد کرنا بعید از فہم ہے۔'

ظریف احمد ظریف نے بڑے جانوروں کی قربانی پر پابندی عائد کرنے کے پیچھے اغراض و مقاصد کے پردے کو سرکاتے ہوئے بتایا: 'در اصل کشمیر میں آر ایس ایس کے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کی کوششں کی جا رہی ہے۔ کشمیریوں سے انتقام لیا جا رہا ہے تاکہ وہ بھارت کے غریب طبقے کو دکھا سکے کہ ہم کشمیریوں پر کس قدر مظالم ڈھا رہے ہیں۔'

'بھارت ایک نام نہاد جمہوری ملک ہے اس کے صرف دانت جمہوری ہیں جبکہ دیگر تمام اعضا ہندوتوا کے ہیں اور ایسے حکم نامے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے بھی جاری کیے جا رہے ہیں۔

'ہمارے رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ یا تو ایسے حکم ناموں کے سامنے سر تسلیم خم کر کے ہندو مذہب قبول کریں یا ان کے خلاف متحد ہو کر پرامن طریقے سے احتجاج کریں اور عالمی عدالت سے رجوع کریں۔'

موصوف مورخ نے کشمیر میں بڑے جانوروں کی قربانی کی تاریخ کا اجمالی تذکرہ چھیڑتے ہوئے کہا: 'ڈوگرہ دور میں بڑے جانوروں کی قربانی پر پابندی عائد تھی یہ سب جانتے ہیں۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ منگل اور سنیچر کے علاوہ ہندوؤں کے مذہبی تہواروں کے موقعوں پر گوشت کھانے کی اجازت نہیں تھی۔

'لیکن یہ کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ مہاراجہ رنبیر سنگھ نے اپنے دور حکومت میں مچھلیاں کھانے پر بھی چار برسوں تک پابندی عائد کی تھی۔ ان سے کسی پجاری نے کہا تھا کہ آپ کے والد مہاراجہ گلاب سنگھ کا روح ایک مچھلی کے روپ میں آیا ہے۔

'ڈوگرہ راج سے قبل ہمارے ہاں سکھوں نے حکومت کی۔ سکھ دور میں ضلع بڈگام سے تعلق رکھنے والے صمد پال نامی ایک شخص کو اپنے خاندان کے سات اراکین سمیت صرف اس جرم میں جلا دیا گیا کیوں کہ اس کے گھر سے گائے کی کھال برآمد ہوئی تھی۔'

ایک اندازے کے مطابق بھارتی کشمیر میں ہر سال عید الاضحیٰ کے موقع پر 500 کروڑ روپے کی مالیت کے جانور قربان کیے جاتے ہیں۔

اگرچہ شہر سری نگر اور دیگر قصبہ جات میں بیشتر لوگ بھیڑ بکریوں کو ہی ذبح کرتے ہیں تاہم دیہی علاقوں میں زیادہ تر لوگ بیل اور گائے کی قربانی کرتے ہیں۔

اکتوبر 2015 میں جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے گائے کے گوشت پر پابندی عائد کرنے کے لیے دائر ایک عرضی کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ عدالت حکومت کو ایک مخصوص قانون بنانے یا ایک قانون کو مخصوص انداز میں نافذ کرنے کی ہدایت نہیں دے سکتی۔

حکم نامے میں کیا لکھا ہے؟

محکمہ اینیمل/شیپ ہسبنڈری اینڈ فشریز کے ڈائریکٹر پلاننگ جی ایل شرما نے پابندی کا حکم نامہ اینیمل ویلفیئر بورڈ آف انڈیا کے ایک خط کے تناظر میں جاری کیا ہے۔

حکم نامے میں لکھا ہے: 'جموں و کشمیر میں بقر عید، جو 21 سے 23 جولائی تک منائی جائے گی، کے دوران ممکنہ طور پر بڑی تعداد میں قربانی کے جانور ذبح کیے جائیں گے۔

'اینیمل ویلفیئر بورڈ آف انڈیا نے جانوروں کے تحفظ کے پیش نظر اینیمل ویلفیئر قوانین بشمول جانوروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے اور ذبح کرنے کے قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی تاکید کی ہے۔'

جی ایل شرما اپنے حکم نامے میں جموں و کشمیر کے دونوں صوبوں کے صوبائی کمشنروں اور پولیس کے انسپکٹر جنرلوں کو لکھتے ہیں کہ 'متذکرہ بالا صورتحال کے پیش نظر مجھے ہدایت دی گئی ہے کہ میں آپ سے اینیمل ویلفیئر قوانین کی پاسداری اور جانوروں کے غیر قانونی ذبح کرنے کی روک تھام کو یقینی بنانے نیز اینیمل ویلفیئر قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لانے کی درخواست کروں۔'

'پابندی مداخلت فی الدین'

کشمیر میں درجنوں مذہبی، سماجی، اصلاحی اور ملی تنظیموں کے اتحاد 'متحدہ مجلس علما' نے بڑے جانوروں کی قربانی پر پابندی عائد کرنے کے حکومتی فیصلے پر سخت تشویش اور اضطراب کا اظہار کیا ہے۔

متحدہ مجلس علما، جس کے سرپرست حریت کانفرنس چیئرمین میرواعظ مولوی عمر فاروق ہیں، نے جمعے کو جاری اپنے ایک بیان میں کہا: 'ہم دو ٹوک الفاظ میں یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اس طرح کے فیصلے یہاں کے عوام کے لیے ہرگز قابل قبول نہیں۔ ہم اسے مداخلت فی الدین سمجھتے ہیں جس کی کسی بھی صورت میں اور کسی بھی حال میں اجازت نہیں دی جا سکتی۔

'ہماری حکمران طبقے سے اپیل ہے کہ وہ جموں و کشمیر جیسے مسلم اکثریتی خطے میں اس طرح کے قوانین کے نفاذ اور مذہبی آزادی میں مداخلت کا رویہ ترک کریں۔'

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے مجلس علما نے اپنی اہم اکائیوں اور سرکردہ مفتیان کرام کا ایک فوری اور ہنگامی نوعیت کا اجلاس مفتی اعظم مفتی ناصر الاسلام کی صدارت میں 18 جولائی بروز اتوار موصوف کے دفتر پر طلب کیا ہے۔

کشمیر کی سب سے پرانی بھارت نواز سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس نے بھی بڑے جانوروں کے ذبح پر پابندی سے متعلق حکم نامے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مسلمانوں کے دینی معاملات میں بے جا مداخلت ہے۔

پارٹی کے ترجمان عمران نبی ڈار نے اپنے ایک بیان میں بڑے جانوروں کے ذبح پر حکومتی پابندی کو انتہائی افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ عید الضحیٰ کے موقعے پر اس قسم کی پابندی عائد کرنے کا مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کو اپنے مذہبی فرائض انجام دینے سے روکنا اور کشمیری عوام کو پشت بہ دیوار کرنا ہے۔

'کشمیر میں اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد آئین اور قانون کی بالادستی کے بلند بانگ دعوے کرتے پھرتے ہیں، خدارا اس بات کی بھی وضاحت کی جائے کہ ملک کے ایک شہری کو اپنے مذہبی فرائض انجام دینے سے روکنا بھارت کے آئین میں کہاں درج ہے؟'

انہوں نے کہا کہ حکومت کو ہوش کے ناخن لے کر مذہبی تعصب پر مبنی اس حکم نامے کو فوری طور پر واپس لینا چاہیے تاکہ عید قربان پر کشمیر کا اکثریتی طبقہ اپنے دینی فرائض بخوبی اور بغیر کسی خلل کے انجام دے سکیں۔

انتظامیہ کا یو ٹرن

کشمیر انتظامیہ نے چوطرفہ تنقید کے بعد جمعے کی شام دیر گئے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ اس نے جانوروں کی قربانی کے متعلق کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے: 'اینیمل ویلفیئر بورڈ آف انڈیا ہر سال ایک ایڈوائزری جاری کرتا ہے جس میں جانوروں کی قربانی قوانین و قواعد کے مطابق انجام دینے کی تاکید کی جاتی ہے۔

'ایسی ہی ایک ایڈوائزری امسال بھی جاری کی گئی جو متعلقہ حکام کو بھیجی گئی ہے۔'

تاہم بیان میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ کشمیری عید الاضحیٰ کے موقع پر بڑے جانور ذبح کر سکتے ہیں یا نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا