کشمیر میں بھی تبدیلی؟ یہاں سیاسی میدان کیوں گرم ہے؟

تحریک انصاف نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اچانک اور غیرمتوقع طور پر اپنے ہی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا ’سرپرائز‘ دے دیا۔ وزارت عظمٰی کے لیے نامزد سردار تنویر الیاس پر پارٹی قیادت اور ممبران اسمبلی کو رقوم دینے کا الزام ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے مستعفی ہونے والے وزیراعظم سردار عبدالقیوم نیازی جن کے خلاف خود ان کی جماعت پی ٹی آئی تحریک عدم اعتماد لے آئی تھی (تصویر:حکومت جموں کشمیر ٹوئٹر)

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے اپنی ہی جماعت کے وزیراعظم پر نااہلی، اقربا پروری اور بدانتظامی کے الزامات کے ساتھ پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد کے بعد وزیراعظم سردار عبدالقیوم نیازی نے استعفیٰ دے کر معاملے کو دلچسپ صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔

اب انتظار ہے کہ آیا تحریک انصاف اپنے نامزد امیدوار اور ارب پتی سرمایہ کار سردار تنویر الیاس کو نیا قائد ایوان منتخب کروانے میں کامیاب ہو جائے گی یا یہ ہما متحدہ حزب اختلاف کے سر بیٹھے گا۔

سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد توقع یہی تھی کہ آئندہ چند ہفتوں یا مہینوں میں متحدہ حزب اختلاف پاکستان کے زیر اتنظام کشمیر میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دے گی لیکن منگل کو پی ٹی آئی نے اپنی جماعت کے منتخب وزیراعظم کے خلاف ان کی ہی کابینہ کے وزرا کے ذریعے تحریک عدم اعتماد جمع کروا کر کئی حلقوں کو حیرت میں ڈال دیا۔

اول تو پی ٹی آئی نے اس تحریک کو متحدہ حزب اختلاف کی جانب سے ممکنہ تحریک عدم اعتماد کی پیش بندی قرار دیا جس کا مقصد اپوزیشن جماعتوں کو تحریک ایوان میں لانے سے روکنا بتایا گیا تاہم جب 25 اراکین اسمبلی کے دستخطوں سے جمع ہونے والی تحریک کا مسودہ سامنے آیا تو اندازا ہوا کہ پی ٹی آئی نے اپنے ہی منتخب وزیراعظم پر نااہلی، بدانتظامی اور اقربا پروری جیسے سنگین الزامات کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کو ’اجاگر‘ نہ کرنے کو ان کی ناکامی کی وجہ قرار دیا ہے۔

سردار عبدالقیوم نیازی کا استعفیٰ

گذشتہ سال اگست میں اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی جانب سے اچانک اور غیر متوقع طور پر وزیراعظم نامزد کیے جانے پر جس قدر حیرت ہوئی تھی اور اس سے زیادہ حیرانی اب ان کو نکالنے کے طریقہ کار پر بھی ہو رہی ہے۔

اگرچہ ان کے انتخاب کے وقت ہی خیال کیا جا رہا تھا ک انہیں پی ٹی آئی کے اندر وزارت عظمی کے دو طاقتور امیدواروں سردار تنویر الیاس اور بیرسٹر سلطان محمود چوھدری کے درمیان کشمکش کے باعث ’ایک عبوری وزیر اعظم‘ کے طور پر سامنے لایا گیا ہے تاہم یہ توقع نہیں تھی کہ انہیں نکالنے کے لیے یوں اچانک اپنی ہی جماعت کی جانب سے تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی۔

سردار عبدالقیوم نیازی نے تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد عمران خان سے ملاقات کی۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس ملاقات میں قیوم نیازی نے عمران خان پر واضح کیا کہ سابق وزیر امور کشمیر علی امین گنڈا پور اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں تحریک انصاف کے سربراہ سردار تنویر الیاس ان کے خلاف مبینہ طور پر سازش کر رہے ہیں اور تنویر الیاس اس تحریک کو کامیاب کروا کر خود وزیر اعظم بننے کے لیے بھاری رقوم خرچ کر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین کے ساتھ ملاقات کے بعد سردار عبدالقیوم نیازی نے سینیئر وزیر سردار تنویر الیاس کے سمیت اپنی کابینہ کے چار وزرا اور ایک مشیر کو مس کنڈکٹ، حکومت مخالف اقدامات اور مشکوک سرگرمیوں کی بنا پر برطرف کر دیا اور بعد ازاں خود بھی وزارت عظمی سے مستعفیٰ ہوگئے۔

استعفیٰ دینے سے قبل سردار عبدالقیوم نیازی نے سابق وزیر امور کشمیر علی امین گنڈا پور پر ان کی حکومت گرانے کی ’سازش‘ کے لیے بھاری رقم اور جائیداد لینے کا الزام عائد کیا۔

اسلام آباد میں ایک اخباری کانفرنس کے دوران انہوں نے الزام لگایا کہ علی امین گنڈا پور اور بعض دیگر مقامی رہنماؤں نے گذشتہ سال عام انتخابات کے علاوہ جموں وکشمیر کونسل کے انتخابات میں بھی ٹکٹ دینے کے لیے امیدواروں کے ساتھ لین دین کیا اور جماعت کے نامزد امیدواروں کے بجائے دوسرے امیدواروں کو کامیاب کروانے کے لیے ممبران اسمبلی میں پیسے تقسیم کیے۔

حزب اختلاف کی کھیل میں واپسی

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے عبوری آئین میں درج عدم اعتماد کے طریقہ کار کے مطابق وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرارداد جمع کرواتے وقت متبادل امیدوار کو نامزد کرنا ضروری ہوتا ہے۔

عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں متبادل نامزد امیدوار کے بطور وزیراعظم کامیابی کا اعلان ہو جاتا ہے۔ تاہم اگر تحریک ناکام ہو جائے تو وزیراعظم نہ صرف اپنے عہدے پر برقرار رہتا ہے بلکہ آئندہ چھ ماہ تک اس کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش نہیں ہو سکتی۔

سردار عبدالقیوم نیازی کے خلاف اپنی ہی جماعت کی جانب سے جمع کی گئی عدم اعتماد کی قرارداد میں سردار تنویر الیاس کو متبادل امیدوار کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔ اس تحریک کی کامیابی اور ناکامی ہر دو صورتوں میں اپوزیشن کی جانب سے اپنا امیدوار نامزد کرنے کا آپشن ختم ہو گیا تھا۔

تاہم تحریک پر ووٹنگ کے لیے بلائے گئے اجلاس سے ایک روز قبل وزیر اعظم عبدالقیوم نیازی کے استعفے کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی اور کئی روز سے اس عمل میں عملاً غیر فعال اپوزیشن کو کھیل میں واپسی کا راستہ مل گیا۔

تحریک عدم اعتماد اورالزامات

پی ٹی آئی کی جانب سے وزارت عظمی کے لیے نامزد سردار تنویر الیاس ارب پتی سرمایہ کار ہیں اور ان پر شروع سے ہی الزام ہے کہ وہ پیسے کے بل بوتے پر سیاسی مفادات حاصل کرتے ہیں۔

عملی سیاست میں نوارد سمجھے جانے والے سردار تنویر الیاس نہ صرف پنجاب کی گذشتہ نگران کابینہ میں شامل تھے بلکہ عثمان بذدار کی کابینہ میں پہلے انہیں سرمایہ کاری بورڈ کا چیئرمین اور بعد ازاں وزیراعلیٰ کا معاون خصوصی مقرر کیا گیا۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی سیاست میں سرگرم ہوتے وقت بھی ان پر اپنی ہی پارٹی کے لوگوں کی جانب سے پیسے کا استعمال کرکے عمران خان اور پی ٹی آئی کے ساتھ قربت بنانے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔

اس الزام کو اس وقت مزید تقویت ملی جب گذشتہ سال پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں انتخابات سے کچھ ہی عرصہ قبل انہیں پی ٹی آئی کی مقامی تنظیم کی مخالفت کے باجود انتخابی مہم میں اہم ذمہ داریاں دی گئیں، اور انہوں نے دوسری جماعتوں سے کئی ’الیکٹبلز‘ کو تحریک انصاف میں شامل کرایا۔

پی ٹی آئی کے انتخابات جیتنے کے بعد سردار تنویر الیاس، پی ٹی آئی کے مقامی صدر بیرسٹر سلطان محمود کے مقابلے میں وزارت عظمیٰ کے مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئے۔ دونوں کی باہمی چپقلش اور دھڑے بندی کے باعث عمران خان نے نسبتاً غیر معروف سردار عبدالقیوم نیازی کو وزیر اعظم نامزد کر دیا۔

کئی سالوں سے کشمیر میں پی ٹی آئی کو منظم کرنے والے بیرسٹر سلطان محمود کو ان کی مرضی کے خلاف پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا صدر نامزد کر کے ان سے اسمبلی نشست سے استعفی دلوا دیا گیا اور کچھ ہی عرصے بعد ان سے پی ٹی آئی کی صدارت واپس لے کر سردار تنویر الیاس کو صدر نامزد کر دیا گیا۔

جماعت کے اندر اور باہر یہ تاثر مسلسل موجود تھا کہ سردار تنویر الیاس کسی بھی وقت اپنی ہی جماعت کے ’عبوری وزیراعظم‘ سردار عبدالقیوم نیازی کو ہٹا کر خود وزیر اعظم بن جائیں گے۔ بیرسٹر سلطان محمود کو اسمبلی سے نکال کر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا صدر بنانے اور ان سے جماعت کی باگ دوڑ لے کر سردار تنویر الیاس کے سپرد کرنے سے یہ تاثر مزید مضبوط ہوا کہ انہیں عمران خان اور پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کی تائید اور حمایت حاصل ہے۔

’عمران خان کا نیا اے ٹی ایم‘

سردارتنویر الیاس آغاز سے ہی شوکت خانم ہسپتال، پارٹی فنڈ، سپریم کوٹ کے ڈیم فنڈ اور عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دوران وزیراعظم کے قائم کردہ خصوصی فنڈز میں اعلانیہ چندہ دینے کے لیے جانا جاتا ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر چوہدری لطیف اکبر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں میں دعوی کیا کہ سردار تنویر الیاس وزیراعظم بننے کے لیے پیسے کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں اور ان کی شکل میں عمران خان کو پارٹی کے لیے ایک نیا ’اے ٹی ایم‘ میسر آ گیا ہے۔

مستعفی ہونے والے وزیراعظم سردار عبدالقیوم نیازی نے اپنی اخباری کانفرنس کے دوران بھی اس بات کا اشارہ دیا ہے۔

تاہم مستعفی ہونے والے وزیر اعظم عبدالقیوم نیازی اور اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے پیسہ استعمال کر کے وزرات عظمیٰ حاصل کرنے کے الزامات پر ردعمل جاننے کے لیے سردار تنویر الیاس اور علی امین گنڈا پور سے رابطے کی کوئی کوششیں کی گئی تاہم ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔

البتہ سردار تنویر الیاس کے سابق ترجمان کے مطابق اپوزیشن کی جانب سے اس طرح کے الزامات لگانا معمول ہے اور وہ اس پر کوئی جواب نہیں دینا چاہتے لیکن اگر کسی کے پاس کوئی مصدقہ ثبوت ہیں، کوئی ٹرانزیکشن کی رسیدیں، تصاویر یا ویڈیوز موجود ہیں یا کسی بھی قسم کا کوئی ثبوت ہے تو سامنے لایا جائے اور اس پر عدالت سے رجوع کیا جائے۔ ’بغیر ثبوت الزام لگانا اور ان کا جواب دینا مناسب نہیں۔‘

علی امین گنڈا پور کی سرگرمیاں

تحریک عدم اعتماد پیش ہوتے ہیں سابق وزیر برائے امور کشمیر علی امین گنڈا پور ایک مرتبہ پھر پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی سیاست میں سرگرم ہو گئے اور اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے ممران اسمبلی کے ساتھ پے درپے ملاقاتوں کے بعد گدشتہ دو روز سے مظفرآباد کے ایک ہوٹل میں مقیم ہیں۔

انہوں نے پی ٹی آئی ممبران اسمبلی کے ساتھ ایک ویڈیو سوشل میڈیا میں جاری کی ہے جس میں کم از کم 28 ممبران اسمبلی کو ان کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے جن میں سردار تنویر الیاس اور ان کی حقیقی چچی شاہدہ صغیر شامل نہیں۔

علی امین گنڈا پور کا کردار گذشتہ سال انتخابات کے دوران بھی انتہائی متنازع رہا۔ انتخابی مہم میں پیسے تقسیم کرنے کی ایک مبینہ ویڈیو سامنے آنے، انتخابی جلسوں میں غیر شائستہ زبان استعمال کرنے اور ان کے گارڈ کی جانب سے فائرنگ کی ویڈیوز سامنے آنے کے بعد الیکشن کمیشن نے انہیں نہ صرف علاقہ بدر کیا بلکہ ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سردار عبدالقیوم نیازی کی بطور وزیر اعظم نامزدگی کا لفافہ بھی علی امین گنڈا پور ہی اسلام آباد سے مظفرآباد لائے تھے تاہم حکومت قائم ہوتے ہی دونوں کے درمیان اختلاف پیدا ہونے کی خبریں گردش کرنے لگیں۔

البتہ بطور وزیراعظم اپنی آخری پریس کانفرنس میں عبدالقیوم نیازی نے ان اختلافات کی وجہ علی امین گنڈا پور کی حکومتی معاملات میں ’بے جا مداخلت قبول کرنے سے انکار‘ بتائی ہے۔

عبدالقیوم نیازی کے بقول ان ہی وجوہات کی بنا پر علی امین گنڈا پور، سردار تنویر الیاس اور کچھ دوسرے وزرا نے ان کی حکومت گرانے کی ’سازش‘ کی اور عمران خان سمیت پارٹی کی اعلیٰ قیادت تک غلط معلومات پہنچائیں۔

نمبرز گیم

ترپن اراکین پر مشتمل کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں پی ٹی آئی کو 32 نشستوں کے ساتھ واضح برتری حاصل ہے۔

وزیراعظم کے گذشتہ انتخابات میں انہیں ایک ایک رکن والی مسلم کانفرنس اور جموں وکشمیر پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل رہی۔ تاہم تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد جموں کشمیر پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی سردار حسن ابراہیم اپوزیشن کی حمایت کا اعلان کرچکے ہیں جبکہ سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان بدستور پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہیں۔

وزیراعظم کے انتخاب کے لیے ایوان میں سادہ اکثریت یعنی 27 ووٹ درکار ہیں جبکہ حزب اختلاف کی جماعتوں کے پاس پیپلز پارٹی کی 12، مسلم لیگ (ن) کی سات اور جموں کشمیر پیپلز پارٹی کی ایک نشست کو ملا کر کل 20 اراکین ہیں۔

سپیکر اسمبلی چوہدری انوار الحق نے اسی اجلاس میں نئے متعلقہ قواعد معطل کرتے ہوئے وزیراعظم کا انتخاب اسی روز کروانے کا فیصلہ کیا اور اس کا باقاعدہ شیڈول بھی جاری کر دیا۔

تاہم اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے سپیکر کے اس اقدام کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کے بعد ہائی کورٹ نے سپیکر کو سوموار تک انتخابات سے روکنے کا حکم دیتے ہوئے اس معاملے کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا ہے۔

پی ٹی آئی نے ہائی کورٹ کا یہ حکم سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے جس کی سماعت آج ہو رہی ہے۔

حزب اختلاف کی جانب سے ابھی تک وزارت عظمی کے لیے کوئی امیدوار سامنے نہیں آیا تاہم عدالت کی جانب سے وقتی طور پر انتخابات روکنے کے نتیجے میں اپوزیشن کو اس پر مشاورت کے لیے تھوڑا بہت وقت میسر آ گیا ہے۔

اس دوران اپوزیش پی ٹی آئی کے بعض ممبران کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔ البتہ عمومی خیال یہ ہے کہ اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا اور پی ٹی آئی سردار تنویر الیاس کو پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کا 14واں وزیراعظم منتخب کروانے میں کامیاب ہو جائے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست