کششِ پندار کے ’بلیک ہول‘

 اے میری چھوٹی سی دنیا کے پیارے ستارو! کششِ ثقل کے عفریت کے برعکس کششِ پندار کے عفریت سے بچا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے اپنی انا کی بوجھل روشنی کی خود ساختہ صلیب خود اٹھا کر لے جانی پڑتی ہے۔

 بلیک ہول کی کشش ایسی کہ کائنات کی سب سے تیز رفتار چیز روشنی بھی ان کے چنگل میں پھنس جائے  تو ابد تک رہائی نہ پائے۔ (پکسابے)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

 

کائنات کی سب سے وزنی، سب سے پرکشش اور سب سے پراسرار اکائی بلیک ہول ہے۔ ان کی بھوک اتنی ہوتی ہے کہ لاکھوں سورج ہڑپ لیں اور ڈکار تک نہ لیں۔ کشش ایسی کہ کائنات کی سب سے تیز رفتار چیز روشنی بھی ان کے چنگل میں پھنس جائے تو ابد تک رہائی نہ پائے۔

اسی لیے انہیں ’بلیک ہول‘ کہا جاتا ہے، کہ یہ اپنے نام کی طرح سیاہ ہوتے ہیں۔

اس لامحدود کائنات کی تو بات ہی کیا، خود ہماری اپنی چھوٹی سی زمین پر بھی ایسے بڑے بڑے ستارے چمکتے رہتے ہیں جن کی چمک آنکھوں کو خیرہ اور ذہن کو مفلوج کر دیتی ہے۔

ہماری دنیاوی کائنات کی تاریخ ایسے کئی ستاروں سے بھری ہوئی ہے جو اپنے تکبر، گھمنڈ، خود سری، انا اور پندار کے وزن میں اضافہ کرتے ہوئے بُھول جاتے ہیں کہ یہ کششِ پندار ان کو اندر کی طرف ڈھیر کر رہی ہے۔ دن دُگُنی اور رات چوگُنی ترقی کے نشۂ بےحساب اور خمارِ بے خودی سے یہ introvert شخصیت میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔

ان کے گرد چند افراد کا مخصوص ٹولہ منڈلاتا رہتا ہے۔ عام لوگوں سے فاصلہ رکھتے ہیں کہ میل جول کی ممانعت ان کے فرقے کا اہم اصول ہے۔ یہ ستارے کسی کی خوشی غمی میں شریک ہونا بھی قابلِ اعتنا نہیں سمجھتے کیونکہ ان کے حواری انہیں باور کروا چکے ہوتے ہیں کہ وہ ان سب دنیاوی عامیانہ رسوم و قیود سے بالاتر ہیں اور کسی الگ الوہی مقصد کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔

لیکن پھر ایک دن یا کسی بھی رات یہ ستارے کششِ پندار سے اندر کی طرف سُکڑ کر بلیک ہول میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور رہ جاتا ہے ایک کالا دھبہ، جس کے قریب جانے سے ہر کوئی ایسے کتراتا ہے جیسے مکڑی کے جالے کے پاس جاتے ہوئے مکوڑے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں اس جالے سے واپسی ممکن نہیں۔

لہٰذا اے دنیا کے چمکتے پیارے ستارو، خودی کی روشنی کو سر بلند رکھنے کا ہُنر اپنی جگہ قابلِ احترام لیکن دھیان رہے یوں نہ ہو کہ خودی جانے کب خود سری میں بدل جائے اور کششِ پندار کا بوجھ خود اپنے لیے ہی باعثِ تباہی و سیاہی بن جائے۔

کششِ ثقل کے عفریت سے بچاؤ ممکن نہیں کہ وہ قانونِ قدرت ہے لیکن کششِ پندار خالص دنیاوی ’ایجاد‘ ہے جس پہ قابو پایا جا سکتا ہے۔

لہٰذا اس سے بچنے کے لیے پندار کا صنم کدہ کبھی کبھی خود ہی ویران کرتے رہنا چاہیے۔ جس کا طریقہ غالب نے یوں بیان کیا ہے کہ دل کو بار بار طوافِ کُوئے ملامت پہ خود ہی آمادہ کرتے رہنا چاہیے۔ ورنہ محبوب اگر بذاتِ خود یہ فریضہ انجام دینے لگے تو پندار کے صنم کدے کا ستارہ محض ویراں ہی نہیں ہوتا اپنے ہی بوجھ سے سُکڑ کر بلیک ہول بھی بن سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اپنے آپ سے محبت کا برملا اظہار خوبصورت انسان کا حق سہی لیکن نرگسیت کے گُلِ بیمار کو اتنا سُورج کے سامنے نہیں رکھنا چاہیے کہ بے نُوری کے علاج کے لیے مشکل سے پیدا ہونے والا دیدہ ور بھی کہہ اٹھے کہ میں تو موتیا کی سرجری سیکھ کے آیا ہوں، کورنیا تبدیل کرنے کا ہُنر نہیں رکھتا۔

خیال رہے کہ بیماری کی حد تک بڑھی ہوی خود اعتمادی کے وائرس ایسی شخصیت کو خود فریبی میں ’کُن‘ پکارنے کی کیفیت تک بھی پہنچا سکتے ہیں۔ یہاں المیہ یہ نہیں کہ انسان کُن پہ بھی دسترس حاصل ہونے کا وہم پال لے، المیہ یہ ہے کہ اس کے حواری اس پر یقین بھی کرنے لگیں۔

غالبِ بے بدل کے نُسخۂ رد پندار سے کام نہ چلے تو ملامتی صُوفیوں کی کڑوی گولیاں بھی آزمائی جا سکتی ہیں جو ’میں، میں اور بس میں‘ کا علاجِ بالشفا ہیں اور جن سے نفیِ ذات اس منزل کا راستہ دکھاتی ہے جہاں واحد ہی کُل ہے لیکن یہ سب اس وقت اگرکوئی تلافی کے راستے پہ چلنا چاہے تو!

 اے میری چھوٹی سی دنیا کے پیارے ستارو! کششِ ثقل کے عفریت کے برعکس کششِ پندار کے عفریت سے بچا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے اپنی انا کی بوجھل روشنی کی خود ساختہ صلیب خود اٹھا کر لے جانی پڑتی ہے اور بوجھ کو مناسب دوری پر لے جا کر ٹھکانے بھی لگانا پڑتا ہے۔

آپ کے حوصلے اور ہمت کے لیے بہت دُعائیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ