لندن سے سڈنی: دنیا کی طویل ترین نان سٹاپ پروازوں کا اعلان

آسٹریلیا کی قومی ایئر لائن نے 2025 سے لندن اور سڈنی کے درمیان نان سٹاپ پروازوں کا اعلان کیا ہے جو 16 ہزار کلومیٹر سے زائد کا سفر طے کر کے 19 گھنٹوں میں مسافروں کو منزل پر پہنچائیں گی۔

چھ مئی 2021 کو قنطاس کی پرواز سڈنی ایئر پورٹ سے اڑ رہی ہے۔ قنطاس نے دنیا کی طویل ترین کمرشل نان سٹاپ پرواز چلانے کا اعلان کیا ہے (اے ایف پی)

برطانوی دارالحکومت لندن اور آسٹریلوی شہر سڈنی کے درمیان براہ راست مسافر پروازیں 2025 کے آخر میں شروع ہونے والی ہیں، جو دنیا کی طویل ترین نان سٹاپ کمرشل پروازیں ہوں گی۔

امکان ہے کہ جیٹ سٹریم کے اثرات کی وجہ سے پرواز کو جنوب کی طرف 19 گھنٹے اور شمال کی طرف دو گھنٹے زیادہ وقت لگے گا۔ لیکن اس کی کامیابی کا انحصار روسی فضائی حدود کے دوبارہ کھلنے پر ہوگا۔

ہیتھرو ایئرپورٹ اور آسٹریلیا کے سب سے بڑے شہر سڈنی کے درمیان سب سے چھوٹا راستہ تقریبا 16 ہزار 800 کلومیٹر ( 10 ہزار 570 میل) ہے۔

لندن تا سڈنی پرواز دنیا کے موجودہ طویل ترین راستے سے بھی 1600 کلومیٹر زیادہ لمبی ہوگی۔  دنیا کا موجودہ طویل ترین کمرشل راستہ سنگاپور اور نیویارک کو ملاتا ہے۔

قنطاس نے ایک درجن ایئربس اے 350-1000 خصوصی جیٹ طیاروں کے آرڈر کا اعلان کیا ہے، جو سڈنی سے لندن اور نیویارک دونوں کے درمیان نان سٹاپ پروازوں کے لیے استعمال ہوں گے۔

مؤخر الذکر راستہ، جس کی پیمائش 15 ہزار 900 کلومیٹر (نو ہزار 940 میل) ہے، زیادہ تر بحرالکاہل اور امریکی فضائی حدود میں ہے۔

آسٹریلوی ایئرلائن نے 2018 میں ہیتھرو اور پرتھ کے درمیان براہ راست پروازیں شروع کی تھیں جو 14 ہزار 500 کلومیٹر (نو ہزار نو میل) طویل تھیں۔ کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے انہیں دو سال کے لیے معطل کردیا گیا تھا لیکن یہ مارچ میں دوبارہ شروع ہوئی ہیں۔

اصل منصوبہ یہ تھا کہ 2023 کے اوائل میں لمبی پروازیں شروع ہوں۔ لیکن کرونا بحران اور اس کے ساتھ تقریباً دو سال تک آسٹریلوی سرحدوں کی بندش کی وجہ سے ’پروجیکٹ سن رائز‘ کہلانے والا یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہو گیا۔

نئی پروازوں کا انحصار روسی فضائی حدود کو مغربی ایئر لائنز کے لیے دوبارہ کھولنے پر ہوگا۔ لندن اور سڈنی کے درمیان سب سے براہ راست راستہ ماسکو کے قریب سے گزرتا ہے۔

اگر روس کے اوپر سے نہیں گزرنا تو ایک راستہ جنوب کی طرف ہے جس کی وجہ سے سفر کم از کم 800 کلومیٹر (500 میل) طویل اور وقت میں ایک گھنٹے کا اضافہ ہو جائے گا، جس سے طیارے کے اوپر لدے ہوئے وزن اور اس کے مالی استحکام پر اثر پڑے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قنطاس پانچ سال سے پروجیکٹ سن رائز کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اس نے پہلی بار 1989 میں لندن سے سڈنی تک براہ راست پرواز کی اور مزید تشہیری پروازیں 2019 میں ہوئیں۔

ایئر لائن نے جدید ترین بوئنگ 777X کی بجائے A350 کا انتخاب کیا۔ اس ایئربس میں ایک اضافی فیول ٹینک لگایا جائے گا اور نئے روٹ کے لیے ٹیک آف کے زیادہ سے زیادہ وزن میں قدرے اضافہ ہوگا۔

طیارہ ساز کمپنی نے لانچ کے لیے خصوصی طور پر سجایا گیا اے 350 سڈنی بھیجا جس پر لکھا ہوا تھا ’لانگ رینج لیڈر‘ اور ’ہماری روح اور دور تک پرواز کرتی ہے۔‘

قنطاس کے چیف ایگزیکٹو ایلن جوائس کا خیال ہے کہ کرونا وائرس کے دور میں دیگر سٹاپس کے بارے میں خدشات کی وجہ سے برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان براہ راست پروازوں کی مانگ پہلے سے کہیں زیادہ ہوگی۔

اس سال لندن اور پرتھ کے درمیان براہ راست پروازیں انتہائی مقبول ثابت ہو رہی ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے دیگر ممالک کی سفری پابندیاں سے بچا جا سکتا ہے۔

جوائس نے کہا: ’100 سال سے زیادہ عرصے سے قنطاس دنیا کے سفر کے انداز کو تبدیل کرنے میں سب سے آگے ہے، خاص طور پر براہ راست پروازوں کے ذریعے۔‘

’اب اے 350 اور پروجیکٹ سن رائز کی وجہ سے دنیا کا تقریباً کسی بھی شہر سے آسٹریلیا سے صرف ایک پرواز کے فاصلے پر ہوگا۔ یہ آخری حد ہے۔ طویل فاصلوں کا حتمی حل، جس کی وجہ سے روایتی طور پر آسٹریلیا کا سفر چینلج بنا رہا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ اگرچہ پہلی پروازیں سڈنی کو لندن اور نیویارک سے جوڑیں گی لیکن مستقبل میں پیرس اور فرینکفرٹ کے درمیان بھی براہ راست پروازیں ممکن ہوں گی۔

طیارے میں 238 نشستیں لگائی جائیں گی جن کے بارے میں قنطاس کا کہنا تھا کہ یہ اس وقت سروس میں موجود کسی بھی دوسرے اے 350-1000 کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔

40 فیصد سے زائد کیبن پریمیم  کے لیے وقف کیے جائیں گے۔ جہاز میں ’ویلبینگ زون‘ بھی ہوگا۔

ایئر لائن کے شیڈول تجزیہ کار شان مولٹن نے کہا: ’کرونا کی وجہ سے طویل روٹس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے، اس سے سرحدی قوانین میں تبدیلی کی صورت میں سٹاپ ختم ہو جاتا ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’قنطاس اپنے کامیاب پرتھ لندن روٹ کو مزید بڑھا کر سڈنی اور میلبرن کی نان سٹاپ فلائٹس شامل کر سکتا ہے۔‘

برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان طویل براہ راست پروازیں اپنے ایندھن کی وجہ سے ون سٹاپ کے مقابلے میں ماحول کے لیے زیادہ نقصان دہ ہیں۔

قنطاس کا کہنا ہے کہ نئی پروازیں ’کاربن میں کمی یا کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو ختم کرنے کے  ساتھ کاربن نیوٹرل ہوں گی۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا