پاکستان اور موروثی سیاست

پاکستان میں ایک وقت میں ایک ہی خاندان کے افراد ناصرف ارکان اسمبلی منتخب ہوئے بلکہ آئینی عہدوں پر بھی رہے۔

وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اور ان کے بیٹے اور وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز (تصاویر شہباز شریف اور حمزہ شہباز سوشل میڈیا اکاؤنٹس)

پاکستان میں موروثی سیاست کا عنصر ہمیشہ سے غالب رہا اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ رجحان بڑھا ہے۔

اس کی تازہ مثال باپ اور بیٹے کا وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ بننا ہے۔ شہباز شریف وزیر اعظم پاکستان جبکہ ان کے بیٹے حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ پنجاب بنے ہیں۔۔

پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں آج بھی موروثی سیاست کی جڑیں مضبوط ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی خاندان کے افراد نا صرف ارکان اسمبلی منتخب ہوئے بلکہ آئینی عہدوں پر بھی رہے۔

پاکستان میں باپ بیٹا، بیٹی، بہن، بھائی، شوہر، بیوی، داماد، بہو اور بھاوج تک سیاسی خاندان کا حصہ ہونے کی وجہ سے اسمبلیوں کے رکن بنے۔

یہ دوسرا موقع ہے جب کسی سابق وزیر اعلیٰ کے بیٹے نے یہ عہدہ سنبھالا ہے۔ پہلے سابق وزیر اعلیٰ سندھ عبداللہ شاہ کے بیٹے سید مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ بننے اور پھر روایت پر عمل کرتے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز کو یہ عہدہ ملا ہے۔

اس سے پہلے یہی باپ بیٹا ایک ہی وقت میں اپوزیشن میں بھی رہ چکے ہیں۔ شہباز شریف قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تھے تو حمزہ شہباز آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے قائد حزب مخالف تھے۔

سب سے نرالی صورت حال مسلم لیگ ق کی ہے۔ ان کی قومی اسمبلی میں کل چار نشستیں ہیں جن میں سے تین ارکان چودھری برادران کے اپنے گھر کے افراد یعنی بیٹے ہیں۔

ایک نشست پر چودھری شجاعت حسین کے بیٹے چودھری سالک حسین منتخب ہیں، جو اتحادی حکومت کا حصہ ہونے کی وجہ سے کابینہ میں شامل ہیں۔

دوسری نشست پر سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہی کے بیٹے مونس الہی کامیاب ہوئے اور قومی اسمبلی کی تیسری نشست وجاہت حسین کے بیٹے حسین الہی کے حصے میں آئی ہے۔

یہ سیاسی خاندان بھی ایک ہی وقت میں اسمبلی میں حزب اقتدار اور حزب مخالف میں بھی بٹا ہوا ہے۔

سیاسی خاندانوں کی بات کی جائے تو وزرائے اعظم کے قریبی رشتے داروں کا ایک وقت میں اسمبلی کا رکن بننا کوئی انوکھی یا اچھبنے کی بات نہیں ہے۔

شریف خاندان کے دو بھائی یعنی نواز شریف اور شہباز شریف بھی ایک ساتھ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ رہے۔ 1997 میں جب نواز شریف دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنے تو شہباز شریف نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے کا حلف اٹھایا۔

اسی طرح جب 2013 میں تیسرے بار وزیر اعظم بنے تو ان کے بھائی شہباز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعلیٰ چنے گئے۔

شریف فیملی کی طرح گجرات کے چودھری برادران کو بھی ایک ساتھ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب رہنے کا موقع ملا۔ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور میں جب پرویز الہی وزیر اعلیٰ تھے تو چودھری شجاعت حسین مختصر معیاد کے لیے وزیراعظم بنے۔

ظفر اللہ خان جمالی کے مستعفی ہونے کے بعد شجاعت حسین نے وزیر اعظم کا حلف اٹھایا اور اس وقت تک وزیر اعظم رہے جب تک شوکت عزیز نئے وزیر اعظم نہیں چن لیے گئے۔

یوسف رضا گیلانی کے بھائی سید احمد مجتبیٰ اور بیٹے عبدالقادر گیلانی اس وقت رکن قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے جب یوسف رضا گیلانی خود وزیر اعظم تھے۔

اس وقت وفاقی کابینہ کے ارکان کے قریبی رشتہ دار بھی اسمبلی کا حصہ ہیں۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے والد اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری بھی رکن قومی اسمبلی ہیں۔

خارجہ امور کی وزیر مملکت حنا ربانی کھر کے بھائی رضا ربانی کھر بھی رکن اسمبلی ہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ ن کے رہنما اور وزیر دفاع خواجہ آصف کی اہلیہ مسرت خواجہ مخصوص نشست پر قومی اسمبلی کی رکن ہیں۔

وزیر دفاع کی بھتیجی شیزا فاطمہ بھی اپنے عزیزوں کے ساتھ اسمبلی کی رکن ہیں۔

اپنے جانشین وزیر دفاع کی طرح سابق وزیر دفاع جہاں خود اسمبلی میں پہنچے وہیں ان کی بھاوج نفیسہ خٹک اور بھانجی ساجدہ بیگم بھی اسمبلی کا حصہ رہیں۔

سیاسی گھرانوں کی بیٹیوں نے پارلیمانی سیاست میں بھرپور حصہ لیا اور کئی وزرا کے عہدے پر پہنچیں۔ ان میں حنا ربانی، مریم اورنگزیب اور نفیسہ شاہ نمایاں ہیں۔

وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کی والدہ طاہرہ اورنگزیب بھی رکن قومی اسمبلی ہیں دونوں خواتین مخصوص نشستوں پر کامیاب ہوئیں. یہ دونوں ماں بیٹی پہلے بھی ایک ہی وقت میں رکن قومی اسمبلی رہ چکی ہیں.

ماضی میں سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو اور ان کی والدہ نصرت بھٹو بھی ایک ساتھ رکن قومی اسمبلی بنیں۔ وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے جب کابینہ تشکیل دی تو اس میں سینیئر وزیر کا قلمدان انہوں نے اپنی والدہ نصرت بھٹو کو دیا۔

سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی جعفر اقبال، ان کی اہلیہ قومی اسمبلی اور بیٹی پنجاب اسمبلی کی مخصوص نشستوں پر رکن رہ چکی ہیں۔

میاں بیوی کا ایک ساتھ اسمبلی کا رکن ہونے کی روایت بھی قائم ہے اور سیاسی جوڑوں نے اسمبلی کے ایوان میں اکٹھے رہے اور سیاست کی۔

بینظیر بھٹو کی دوسری کابینہ یعنی 1993 میں آصف علی زرداری بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ قومی اسمبلی کے رکن تھے اور انہیں وزارت بھی ملی اور وہ اپنی اہلیہ کی کابینہ میں شامل ہوئے۔

سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری واحد میاں بیوی نہیں تھے جو رکن اسمبلی بننے۔ ان کے علاوہ مسلم لیگ ن کی شائستہ پرویز اپنے شوہر کے ساتھ ایک سے زیادہ مرتبہ رکن منتخب ہوئیں۔

2018 کے انتخابات میں پرویز ملک، ان کی اہلیہ شائستہ پرویز اور ان کا بیٹا علی پرویز رکن اسمبلی چنے گئے۔ پرویز ملک گذشتہ برس انتقال کر گئے اور ان کی اہلیہ ان کی خالی ہونے والی نشست پر کامیاب ہوئیں۔ اس سے وہ مخصوص نشست پر اپنے شوہر اور بیٹے کے ساتھ رکن قومی اسمبلی تھیں۔

مسلم لیگ ن کے رہنما جوڑے عظمی بخاری اور ان کے شوہر چودھری سمیع اللہ خان بھی پنجاب اسمبلی کی رکن ہیں۔

اس سیاسی جوڑے کے علاوہ ریاض فیاتنہ اور ان کی اہلیہ آسیہ فیاتنہ اور جاوید علی عباسی اور ان کی شریک حیات مہرین بھٹو بھی ایک ساتھ رکن قومی اسمبلی ہیں۔

ماضی میں دیکھا جائے تو سرگودھا کی چیمہ خاندان بھی ایک وقت اسمبلی میں رہے۔ اگر خاندان کا سربراہ انور چیمہ رکن قومی اسمبلی تھے تو بیٹا عامر سلطان اور بہو تنزیلہ پنجاب کابینہ کی رکن تھے۔

جہاں پیپلز پارٹی کے دور فہمیدہ مرزا سپیکر قومی اسمبلی تھیں تو ان کے شوہر ذوالفقار علی مزرا سندھ کابینہ کے اہم رکن تھے۔

سابق وفاقی وزیر ارباب عالمگیر خان کے ساتھ ان کی اہلیہ بھی مخصوص نشستوں پر رکن قومی اسمبلی تھی۔

اس کے علاوہ بینظیر بھٹو کی پولیٹیکل سیکریٹری ناہید خان اور ان کے شوہر صفدر عباسی بھی ایک ہی وقت میں رکن قومی اسمبلی رہے۔ صفدر عباسی سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر اشرف خاتون عباسی کے بیٹے ہیں۔

کل کے مخالف اور آج کے اتحادی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں وزرائے اعلیٰ کے بچے بھی اس وقت قومی اسمبلی کے رکن بنے جب ان کے والد وزرائے اعلیٰ تھے۔

وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی بیٹی نفسیہ شاہ اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز رکن قومی اسمبلی تھے۔

قاضی حسین احمد اور مخدوم جاوید ہاشمی دونوں کی بیٹیاں راحیلہ قاضی اور میمونہ ہاشمی بھی اس وقت رکن اسمبلی تھیں جب ان کے والد اسمبلی کے رکن تھے۔

خاندان سیاست میں بہن بھائیوں کی بات کی جائے تو یہ خانہ بھی خالی نہیں ملے گا۔

مسلم لیگ ن کے رہنما اور وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کے بھائی رکن پنجاب اسمبلی ہیں اور ماضی میں دونوں بھائی وفاقی اور صوبائی وزیر تھے۔

خواجہ سعد رفیق کی اہلیہ بھی اس وقت رکن پنجاب اسمبلی رہ چکی ہیں جب ان کے شوہر رکن قومی اسمبلی تھے۔

اسی طرح سابق وزیر مخدوم خسرو بختیار اور ان کے بھائی ہاشم جواں بخت نا صرف دونوں ایک ہی وقت رکن قومی اور صوبائی اسمبلی رہے بلکہ وفاقی اور صوبائی کابینہ میں بھی تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کے قریبی رشتہ دار فرخ الطاف بھی جہلم سے ایک ہی وقت میں اسمبلی میں پہنچے لیکن فرخ الطاف ان ارکان اسمبلی میں شامل ہیں جو منحرف ہوچکے ہیں۔

بینظیر بھٹو 1993 میں جس وقت وزیراعظم تھیں تو ان کے بھائی مرتضیٰ بھٹو پیپلز پارٹی شہید بھٹو گروپ کی طرف سے رکن سندھ اسمبلی تھے۔

نواز شریف جس وقت دوسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو ان کے بھائی عباس شریف پہلی بار رکن اسمبلی بنے اور اس طرح تینوں بھائیوں میں دو رکن قومی اسمبلی اور ایک وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہوا۔

عدالتی فیصلے پر نواز شریف کے نااہل ہونے پر ان کی نشست پر ان کی اہلیہ کلثوم نواز نے انتخاب لڑا لیکن بیماری کی وجہ سے عہدے کا حلف نہ اٹھا سکیں۔

سابق وزیر اعظم کے داماد اور مریم نواز کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر بھی رکن اسمبلی رہے اور ان کی اہلیہ مریم نواز 2018 میں انتخابی معرکے میں اتریں لیکن عدالتی سزا کی وجہ سے انتخاب نہ لڑ سکیں۔

جہلم کے راجہ صفدر اور راجہ اسد کی طرح شیخوپورہ کے رانا تنویر اور رانا افضال ایک ساتھ اسمبلی میں بیٹھ چکے ہیں۔

ماضی میں سردار یار رند اور عائلہ ملک واحد ایسے ارکان اسمبلی ہیں جو ارکان اسمبلی ہوتے رشتہ ازداج میں منسلک ہوئے اور پھر ان کی علیحدگی ہوگئی۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی رائے پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ