بونیر یونیورسٹی: ’طالبہ بچے کو دودھ پلا رہی تھی کہ جنریٹر نے جان لے لی‘

واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے جاری ایک مراسلے میں یونیورسٹی کو تاحکم ثانی بند کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔

انتظامیہ کے مطابق واقعہ اس وقت پیش آیا جب طالبہ اپنے شیر خوار بچے کو دودھ پلا رہی تھیں اور کامن روم میں رکھے جنریٹر کی وجہ سے وہ دونوں دم گھٹ جانے پر بے ہوش ہو گئے (سکرین گریب: یونیورسٹی آف بونیر فیس بک گروپ)

یونیورسٹی آف بونیر ضلع خیبر پختونخواہ میں ایک طالبہ اور ان کا دودھ پیتا بچہ فیمیل کامن روم میں دم گھٹ جانے کے باعث ہلاک ہو گئے۔

انتظامیہ کے مطابق واقعہ اس وقت پیش آیا جب طالبہ اپنے شیر خوار بچے کو دودھ پلا رہی تھیں اور کامن روم میں رکھے جنریٹر کی وجہ سے وہ دونوں دم گھٹ جانے پر بے ہوش ہو گئے۔

اس واقعے کے بعد یونیورسٹی کے طلبہ سراپا احتجاج ہیں اور یونیورسٹی انتظامیہ سے انصاف کی اپیل کر رہے ہیں۔ بونیر یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ واقعہ یونیورسٹی انتظامیہ کی غفلت  کی وجہ سے پیش آیا ہے کیونکہ انتظامیہ نے جنریٹر کو فیمیل کامن روم میں رکھا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ یہ طالبہ شعبہ انگلش میں بی ایس(چار سالہ ڈگری پروگرام) کر رہی تھیں اور ان کے بچے کی عمر ایک سال تھی۔

طالب علم کے مطابق ’یونیورسٹی میں کسی قسم کی ایمبولینس کا بندوبست موجود نہیں تھا، اس لیے ریسکیو 1122 کو بلایا گیا۔ یونیورسٹی میں بجلی کی ناروا لوڈشیڈنگ اور پینے کی پانی کا بحران بھی ہے لیکن انتظامیہ ٹس سے مس نہیں ہوتی۔‘

ریسکیو 1122 کے اہلکار نے بتایا کہ ان کو یونیورسٹی کی جانب سے کال موصول ہوئی جس کے بعد  ان کی ٹیم وہاں گئی اور وہاں سے  ایک خاتون اور بچے کی لاش کو ضلعی ہسپتال ڈگر بونیر منتقل کیا تاہم ریسکیو کے مطابق موت کی وجہ کے بارے میں ان کو کچھ پتہ نہیں ہے۔

واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے جاری ایک مراسلے میں یونیورسٹی کو تاحکم ثانی بند کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔

 مراسلے(جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو ے پاس موجود ہے) میں لکھا گیا ہے کہ یونیورسٹی کی ایک طالبہ اور ان کے بچے کی موت کی وجہ سے یونیورسٹی کو تاحکم ثانی بند کیا گیا ہے۔

یونیورسٹی انتظامیہ کا موقف

یونیورسٹی کے ترجمان شاہد رحمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس بات میں صداقت نہیں ہے کہ جنریٹر کو فیمیل کامن روم میں رکھا گیا تھا بلکہ جنریٹر ایک خالی کمرے میں رکھا تھا جہاں پر یہ طالبہ بچے سمیت دودھ پلانے گئی تھیں۔‘

شاہد نے بتایا کہ ’طالبہ نے  کمرے کو اندر سے لاک بھی کیا اور جس وقت یہ وہاں موجود تھیں اس وقت جنریٹر بند تھا۔ اس سے پہلے صبح کے وقت اسے چلایا گیا تھا تو شاید پہلے سے موجود جنریٹر کی گیس سے دونوں کا دم گھٹ گیا ہے۔‘

ترجمان کے مطابق انتطامیہ کو اس وقت پتہ چلا جب ایک جنریٹر آپریٹر جنریٹر چلانے کے بعد کمرے میں جا رہے تھے کیونکہ اس دوران جنریٹر آن نہیں تھا۔‘

ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا یونیورسٹی میں ایمبولینس موجود نہیں ہے، تو اس کےجواب میں ان کا کہنا تھا ’اس واقعے سے پہلے یونیورسٹی کے ایک استاد بیمار تھے اور اسی وقت انہیں ایمبولینس میں ہسپتال شفٹ کیا گیا تھا اور یونیورسٹی کے پاس ایک ہی ایمبولینس ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے ضلعی ہسپتال بونیر کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کی تاکہ موت کی اصل وجہ معلوم ہو سکے، لیکن کسی نے فون نہیں اٹھایا۔

یاد رہے کہ خیبر پختونخوا کے بہت کم جامعات اور سرکاری دفاتر میں ڈے کئیر سسٹم موجود ہے اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے اس پر بارہا مطالبات بھی سامنے آئے ہیں کہ یونیورسٹیوں اور دفاتر میں شادی شدہ طالبات اور خواتین ملازمین کے لیے ڈے کئیر روم بنائے جائیں۔

شاد  بیگم خیبر پختونخوا میں خواتین کے حقوق کی کارکن ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ نہایت ہی افسوس ناک واقعہ ہے کہ ڈے کئیر نہ ہونے کی وجہ سے طالبہ جنریٹر کے کمرے میں بچے کو دودھ پلانی پر مجبور ہوگئی تھی اور وہاں پر انھوں نے جان دے دی۔‘

’ہمارے معاشرے میں ویسے بھی خواتین کی تعلیم کو اہمیت نہیں دی جاتی اور جب یونیورسٹی تک کوئی خاتون چلی جائیں تو یہ کمال ہوتا ہے لیکن سہولیات کی فقدان کی وجہ سے ایسے واقعات خواتین کی تعلیم کو ڈسکرج کرتے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا ’حکومت کی جانب سے اس واقعے کے بعد جامعات میں باقاعدہ بچوں کے ڈے کیئر نظام کا بندوبست ہونا چاہیے اور ساتھ میں سرکاری دفاتر میں بھی یہ نظام ہونا لازمی ہے تاکہ شادی شدہ خواتین کو تعلیم حاصل کرنے اور خواتین ملازمین کو دفتری کام کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان