احتساب کا بھی احتساب ہو گا: چئیرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں سوال کیا گیا کہ نیب نے 821 ارب روپے ریکور کیے تو قومی خزانے میں صرف ساڑھے 6 ارب روپے کیوں جمع ہوئے؟ ریکور کی گئی باقی رقم کہاں گئی؟

پی اے سی کا اجلاس چئیرمین نور عالم خان کی زیر صدارت ہوا(تصویر: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ویب سائٹ)

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے آج نیب کی جانب سے ریکور کی گئی رقم کے آڈٹ اور نیب کے تمام ملازمین اور ان کے خاندان کے اثاثے ظاہر کرنے کی ہدایات دی ہیں۔ 

کمیٹی نے ملازمین کو ملنے والی تنخواہوں اور مراعات کی تفصیلات بھی طلب کر لی ہیں۔

اجلاس میں کیا ہوا؟ 

پی اے سی کا اجلاس چئیرمین نور عالم خان کی زیر صدارت ہوا جس میں نیب کی جانب سے ریکور کی گئی رقم کا معاملہ زیر غور آیا۔ اجلاس شروع ہوتے ہی چئیرمین کمیٹی نے نیب کارروائیوں پر تحفظات کا اظہار کیا۔ انہوں نے قائم مقام چئیرمین نیب ظاہر شاہ سے سوال کیا کہ بعض لوگوں کے خلاف کیسز بنائے جاتے ہیں جن کے خلاف کوئی جرم ثابت نہ ہو تو کیا نیب ان سے معافی مانگتا ہے؟

قائم مقام چئیرمین نیب ظاہر شاہ نے کمیٹی کو بتایا کہ نیب کا ایک ہی اکاونٹ ہے جس کا آڈٹ جب بھی چاہیں ہو سکتا ہے۔ جتنی بھی ریکوریز ہوتی ہیں قانون کے مطابق ریکور کیے گئے پیسوں کو ایک ماہ میں واپس کرنا ہوتا ہے، ان میں زیر التوا کیسز بھی شامل ہیں۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے کبھی آڈٹ سے انکار نہیں کیا، ہمارے پاس  پارلیمنٹ یا حکومت کی جانب سے کی گئی قانون سازی کو چیلنج کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔‘

چئیرمین کمیٹی نے کہا کہ ’جتنی بھی ریکوری ہو اس کا آڈٹ ہوگا، کوئی بھی ادارہ ہو، حکومت نے اس میں ایک  پیسہ بھی لگایا ہو تواس کا آڈٹ ضروری ہے۔ قانون کے مطابق کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے، احتساب کا بھی احتساب ہوگا۔‘

سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا جو پیسے نیب میں آئے ان کا آڈٹ ہونا چاہیے۔ ’سابق چئیرمین کہتے تھے کہ ہم نے جتنے پیسے حکومت کو دیے کسی ادارے نے نہیں دیے اور وزارت خزانہ کے مطابق انہوں نے ہمیں کوئی پیسے نہیں دیے، جو پیسے وزارت خزانہ میں نہیں گئے ان کا آڈٹ کروائیں۔‘

کمیٹی رکن سینیٹر شبلی فراز نے نیب کے قانون میں حالیہ ترامیم کے حوالے سے سوال اٹھایا جس پر قائم مقام چئیرمین نیب نے کہا کہ ’ہمارے پاس پارلیمنٹ یا حکومت کی جانب سے کی گئی قانون سازی کو چیلنج کرنے کا کوئی اختیار نہیں، ہم نے تو قانون کو ماننا ہے۔‘

چئیرمین کمیٹی کا موقف

چئیرمین کمیٹی نور عالم خان نے انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پی اے سی نے نیب کے آڈٹ کی ہدایات جاری کردی ہیں۔ پاکستان کے ہر سرکاری ادارے کو ملنے والے ایک بھی روپے کا آڈٹ ہوتا ہے۔ ملنے والی رقم قومی خزانے میں آتی ہے ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی ادارہ ملنے والے پیسے اپنے پاس رکھ دے۔ نیب کی جانب سے ریکور کیے گئے 821 ارب روپے کا آڈٹ ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر صدر مملکت، وزیراعظم، وفاقی وزرا اور اراکین پارلیمنٹ تفصیلات سامنے لاتے ہیں تو نیب افسران قانون سے مبرا تو نہیں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ نیب افسران کو برا لگتا ہے جب انہیں کہیں کہ وہ بھی وہی پروفارما بھریں جو باقیوں سے بھرنے کا کہتے ہیں کہ آپ کے والد، دادا پر دادا کے پاس کیا اثاثے تھے تو ان سے بھی پوچھا جائے کہ آپ کو گھر پلاٹ کہاں سے ملے؟ 

نور عالم کا کہنا تھا کہ اگر ہم 1929 سے 2021 تک کا ریکارڈ دے سکتے ہیں تو ان کو بھی دینا چاہیے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ ان کے خلاف نیب کا کوئی کیس نہیں بلکہ ایک انکوائری ہے۔ 

پی ٹی آئی کمیٹی اراکین کیا کہتے ہیں؟

بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر شبلی فراز کا کہنا تھا کہ ’چئیرمین پی اے سی نورعالم خان خود نیب کے ملزم ہیں، نیب کے احتساب کے لیے چئیرمین پی اے سی کی کرسی پر کیسے بیٹھ سکتے ہیں؟ نیب کے ملزم کا پی اے سی اجلاس چیئرکرنا مفادات کا ٹکراؤ ہے۔‘

شبلی فراز نے نور عالم خان کو نیب آڈٹ اعتراضات کی سماعت کے دوران اجلاس کی صدارت کسی اور کو دینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

تین نومبر 2021 کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ قومی احتساب بیورو  (نیب) کے قیام سے لے کر جون 2021 تک ادارہ کی جانب سے 821 ارب روپے کی رقم کی ریکوری کی گئی جب کہ قومی خزانے میں صرف 6.5 ارب روپے جمع کروائے گئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان