ہانگ کانگ مظاہروں پر چین اور برطانیہ آمنے سامنے

ہانگ کانگ مظاہروں پر برطانیہ کی مبینہ مداخلت سے بیجنگ اور لندن کے تعلقات کو نقصان پہنچا ہے، چین۔

(اے ایف پی)

چین نے کہا ہے کہ ہانگ کانگ مظاہروں پر برطانیہ کی مبینہ مداخلت سے بیجنگ اور لندن کے تعلقات کو نقصان پہنچا ہے۔

برطانیہ میں چین کے سفیر لیو شاؤمنگ کے مطابق، برطانیہ کے وزیرخارجہ جیریمی ہنٹ کی ہانگ کانگ میں مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی سے دونوں ممالک کے تعلقات متاثر ہوئے۔

انہوں نے کہا برطانوی وزیر خارجہ کی ہانگ کانگ میں ہونے والے واقعات پر تنقید غلطی تھی۔

’یہ آزادی کا نہیں بلکہ ہانگ کانگ میں قوانین توڑنے کا معاملہ تھا اور برطانوی حکومت اس معاملے میں غلط سمت پر کھڑی تھی۔ اعلیٰ سطح کے برطانوی عہدے دار کا قانون توڑنے والوں کی حمایت کرنا مایوس کن تھا۔‘

ہانگ کانگ پر برطانوی تسلط کا ذکر کرتے ہوئے چینی سفیر کا کہنا تھا ’ہم سب کو یاد ہے کہ 22 سال پہلے ہانگ کانگ برطانوی راج میں کن حالات سے گزر رہا تھا۔ وہاں آزادی اور جمہوریت جیسی کسی چیز کا وجود نہیں تھا۔‘

’ہم سب جانتے ہیں کیسے برطانیہ وہاں [ہانگ کانگ میں] گورنر تعینات کیا کرتا تھا۔ عوام کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا اختیار نہیں تھا اور نہ ہی حق تلفی کے خلاف مظاہرہ کرنے کی اجازت۔ یہاں تک کہ ان کے پاس آزاد عدالیہ کا دورازہ کھٹکھٹانے کا حق بھی حاصل نہیں تھا۔‘

چینی سفیر کے بیان کے بعد برطانوی وزیرخارجہ نے اپنی ٹویٹ کے ذریعے برطانوی موقف دہراتے ہوئے کہا ’یہ چینی حکومت کے لیے پیغام ہے کہ اقوام کے درمیان اچھے تعلقات باہمی احترام اور ان کے درمیان معاہدوں کی پاسداری پر منحصر ہوتے ہیں۔ برطانیہ اور چین کے درمیان قائم عظیم تعلقات کو بچانے کا یہ بہترین طریقہ ہے۔‘

برطانیہ کے دفتر خارجہ نے چینی سفیر کو ان کے بیان کے چند گھنٹوں بعد طلب کر کے بتایا کہ ان کا بیان ناقابل قبول اور غلط ہے۔

گذشتہ روز جیریمی ہنٹ نے اپنا بیان دہراتے ہوئے کہا برطانیہ چاہتا ہے کہ 1984 میں کیے گئے معاہدے کا احترام کیا جائے۔ اگر چین اس معاہدے کا احترام نہیں کرتا تو بیجنگ کو اس کے نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ ’یقینی طور پر اس کا ردعمل ہو گا۔‘

تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ ردعمل یا سنگین نتائج کیا ہوں گے۔

چینل فور سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’یہ اچھی سفارت کاری نہیں کہ آپ پہلے سے ہی اپنا آئندہ کا لائحہ عمل ظاہر کر دیں۔ تاہم میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ برطانیہ جو دنیا کی سب سے پرانی جمہوریت ہے، ہانگ کانگ کے مستقبل کے حوالے سے چین کے ساتھ طے معاہدے پر سختی سے عمل درآمد چاہتا ہے۔‘

ان کا یہ بیان رواں ہفتے ہانگ کانگ کی قانون ساز کونسل کی عمارت پر مظاہرین کے گھیراؤ کے بعد سامنے آیا تھا، جب سابقہ برطانوی کالونی کو چین کے حوالے کرنے کی 22ویں سالگرہ منائی جا رہی تھی۔

مظاہرین نے عمارت پر چین مخالف نعرے تحریر کیے اور سپیکر کے پوڈیم پر برٹش کولونین پرچم لہرا دیا تھا۔ بیجنگ حکومت نے ان مظاہروں کی مذمت کرتے ہوئے چین نواز ایگزیکٹیو اتھارٹی پر مظاہرین کے خلاف مقدمے چلانے کے لیے زور دیا ہے۔

چین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کی بھی مذمت کی جس میں انہوں نے کہا تھا مظاہرین جمہوریت کے لیے احتجاج کر رہے ہیں جبکہ کچھ حکومتوں کو جمہوریت پسند نہیں۔

اس سے قبل برطانوی وزیراعظم ٹریزا مے نے بھی مظاہرین کے خلاف چینی اقدامات کی شدید مذمت کی تھی۔ گذشتہ ہفتے ہانگ کانگ کے سابق برطانوی گورنر کرس پیٹین نے مظاہرین کے خلاف تشدد پر برطانیہ کے محتاط ردعمل کو بزدلانہ قرار دیا تھا۔

 

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا