امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ نے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ڈرون حملہ کر کے القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کو ہلاک کر دیا ہے۔
دی انڈپینڈنٹ کے مطابق امریکی صدر نے پیر کی شب ایک ویڈیو خطاب میں کہا کہ حملے کی منظوری انہوں نے دی اور اس میں عام لوگوں کا جانی نقصان نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا: ’انصاف ہوگیا ہے۔ یہ دہشت گرد اب نہیں رہے۔ اب دنیا بھر کے لوگوں کو ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
صدر بائیڈن نے اپنے خطاب میں بتایا کہ کس طرح القاعدہ کے سربراہ نہ صرف نائن الیون کی ہلاکتوں بلکہ یمن میں 2010 میں امریکی بحریہ کے جہاز یو ایس ایس کول پر حملے کے بھی ذمہ دار تھے جس میں 17 امریکی ہلاک ہوئے تھے، اور وہ کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر بم دھماکوں میں بھی ملوث تھے۔
انہوں نے کہا: ’ہم آج رات پھر یہ واضح کر دیتے ہیں کہ چاہے اس میں کتنا ہی وقت لگے، چاہے آپ کہیں بھی چھپیں۔ اگر آپ ہمارے لوگوں کے لیے خطرہ ہیں تو امریکہ آپ کو ڈھونڈ کر مار دے گا۔‘
امریکی صدر نے ایک ٹویٹ میں اس حوالے سے اعلان بھی کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی ہدایت پر کابل میں ڈرون حملے میں الظواہری کو نشانہ بنایا گیا۔
On Saturday, at my direction, the United States successfully conducted an airstrike in Kabul, Afghanistan that killed the emir of al-Qa’ida: Ayman al-Zawahiri.Justice has been delivered.— President Biden (@POTUS) August 1, 2022
انہوں نے اپنے خطاب میں کہا: ’میں نے امریکی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ ہم افغانستان اور دیگر جگہوں پر انسداد دہشت گردی کے آپریشن جاری رکھیں گے، اور ہم نے ایسا کیا۔‘
اے ایف پی کے مطابق انتظامیہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے کہا کہ الظواہری کو ’کابل میں واقع ایک گھر کی بالکنی‘ میں مارا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ الظواہری کی کابل میں موجودگی 2020 میں امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ معاہدے کی ’واضح خلاف ورزی‘ تھی۔
دی انڈپینڈنٹ کے مطابق سینیئر عہدیدار نے کامیاب آپریشن کی تفصیلات دیتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ الظواہری پر حملے کی منصوبہ بندی ’کئی سال‘ سے جاری تھی۔
عہدے دار نے مزید کہا کہ یہ آپریشن القاعدہ کے معاون نیٹ ورک کی نگرانی کا نتیجہ تھا جسے الظواہری کے لیے چلایا جا رہا تھا۔
عہدے دار نے بتایا کہ امریکی انٹیلی جنس نے رواں سال کابل کے ایک سیف ہاؤس میں القاعدہ رہنما کے خاندان کے افراد کی شناخت کی جن میں ان کی اہلیہ، بیٹی اور بچے بھی شامل ہیں۔
انٹیلی جنس حکام اس بات پر ’اعتماد حاصل کرنے‘ میں کامیاب رہے کہ الظواہری اسی سیف ہاؤس میں ’موجود‘ ہیں۔
عہدے دار نے مزید کہا کہ ہم نے متعدد مواقع پر بالکنی میں الظواہری کی شناخت کی گئی، جہاں بالآخر انہیں مارا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کو سب سے پہلے اپریل کے شروع میں الظواہری کی کابل میں موجودگی کے بارے میں بتایا گیا تھا اور اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ انٹیلی جنس حکام نے شہری ہلاکتوں کے خطرے کو کم سے کم کرنے کے ساتھ ساتھ کابل شہر میں ایک عمارت پر ڈرون حملے کے اثرات پر غور کرنے کے لیے بہت کام کیا۔
اہلکار نے کہا کہ جو بائیڈن کو رواں سال مئی اور جون تک الظواہری کے حوالے سے انٹیلی جنس کی تازہ ترین معلومات دی جاتی رہیں اور اس دوران انہوں نے ’اہم مشیروں اور کابینہ کے اراکین‘ کے ساتھ ’کئی ملاقاتیں کیں‘ جن میں انہوں نے ’احتیاط سے معلومات کی جانچ پڑتال کی اور ایکشن کا بہترین راستہ نکالا۔‘
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق انٹیلی جنس عہدیدار کا کہنا تھا کہ الظواہری کو جس گھر میں ہلاک کیا گیا وہ طالبان کے سینئر رہنما سراج الدین حقانی کے ایک اعلیٰ معاون کی ملکیت تھا۔
امریکی عہدے دار کے مطابق طالبان کی اعلیٰ قیادت کو کابل میں الظواہری کی موجودگی کا علم تھا اور امریکہ نے طالبان حکومت کو اس کارروائی کی پیشگی وارننگ نہیں دی۔
طالبان کا ردعمل
روئٹرز کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے منگل کی صبح کہا کہ کابل کے نواحی علاقے شیر پور میں اتوار کو ایک رہائش گاہ پر ’فضائی حملہ‘ کیا گیا۔
په کابل ښار د ډرون برید په اړه د اسلامي امارت د ویاند څرګندونيhttps://t.co/6hTyML1yXP pic.twitter.com/TpWYvvcT2v
— Zabihullah (..ذبـــــیح الله م ) (@Zabehulah_M33) August 1, 2022
ان کا کہنا تھا: ’ابتدائی طور پر واقعے کی نوعیت معلوم نہیں ہوسکی تھی۔ امارت اسلامیہ کے سکیورٹی اور انٹیلی جنس اداروں نے واقعے کی تحقیقات کیں اور ان کی ابتدائی تحقیقات میں پتہ چلا کہ یہ حملہ امریکی ڈرونز سے کیا گیا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ افغان حکومت اسے ’بین الاقوامی اصولوں‘ اور 2020 میں امریکی فوج کے انخلا کے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کرتی ہے۔
اے ایف پی کے مطابق 31 اگست 2021 کو افغانستان سے انخلا کے بعد یہ افغانستان میں القاعدہ پر پہلا امریکی حملہ ہے۔
الظواہری ایک مصری سرجن تھے جو انتہا پسندی کی جانب آنے سے قبل قاہرہ میں پلے بڑھے۔
وہ نائن الیون حملوں کے بعد سے 20 سال سے مفرور تھے۔
پاکستان میں امریکی حملے میں القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن کی موت کے بعد الظواہری نے القاعدہ کی کمانڈ سنبھالی۔ ان کے سر پر امریکی نے 2.5 کروڑ کا انعام رکھا تھا۔
سعودی عرب کا خیر مقدم
سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ سعودی عرب ایمن الظواہری کو ہلاک کرنے کے متعلق امریکی اعلان کا خیر مقدم کرتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیان میں کہا گیا: ’سعودی عرب امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے القاعدہ کے دہشت گرد رہنما ایمن الظواہری کو نشانہ بنانے اور ہلاک کرنے کے اعلان کا خیر مقدم کرتا ہے۔‘
سعودی وزارت خارجہ نے کہا کہ انہیں ’دہشت گردی کے ان لیڈروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جنہوں نے امریکہ، سعودی عرب اور دنیا کے کئی دوسرے ممالک میں دہشت گردانہ کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور ان پر عمل درآمد کیا۔‘
بیان کے مطابق ان حملوں میں ’سعودی شہریوں سمیت مختلف ممالک اور مذاہب کے ہزاروں بے گناہ لوگ مارے گئے۔
’مملکت کی حکومت تعاون کو مضبوط بنانے اور دہشت گردی سے نمٹنے اور اس کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی کوششوں کو مربوط کرنے کی اہمیت پر زور دیتی ہے، تمام ممالک سے مطالبہ ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیموں سے معصوم لوگوں کو بچانے کے لیے اس فریم ورک میں تعاون کریں۔‘