سیمی فائنل میں ہار پر کشمیری جشن کیا ایک ٹریلر تھا؟

دس اور گیارہ جولائی کی رات میں جو منظر کشمیر کی گلیوں میں دیکھنے کو ملا تو یہ یقین کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہ ہوئی کہ ہم نے انگلینڈ میں کھیلا جانے والا کرکٹ ورلڈ کپ آخر کار جیت ہی لیا ہے۔

بھارت نے سیمی فائنل کیا ہارا کہ کشمیر میں جیسے خوشی کی لہر دوڑ گئی اور نیوزی لینڈ کی جیت پر جشن  کے پٹاخے پھوڑنے لگے (روئٹرز)

دس اور گیارہ جولائی کی رات میں جو منظر کشمیر کی گلیوں میں دیکھنے کو ملا تو یہ یقین کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہ ہوئی کہ ہم نے انگلینڈ میں کھیلا جانے والا کرکٹ ورلڈ کپ آخر کار جیت ہی لیا ہے۔ میرا مطلب پاکستان کا یا بھارت کا جیتنا نہیں بلکہ کشمیر کا جس کی پوری رات بےشمار پٹاخے پھوڑنے میں گزرگئی۔

پورا کشمیر نیوزی لینڈ اور بھارت کے بیچ کھیلا جانے والا پہلا سیمی فائنل دیکھنے کے لیے ٹیلیویژن سکرینوں کے ساتھ چمٹا ہوا تھا۔ اکثر لوگ نیوزی لینڈ کے جیتنے کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ اس کیفیت کو سمجھنے کے لیے اگرچہ محقیقین اور مورخین کو ایک عدد تجزیہ کرنا ضروری بنتا ہے مگر میں اس کیفیت کو یوں بیان کر سکتی ہوں کہ بیشتر کشمیریوں کے دل و دماغ میں اس قدر غصہ بھرا ہوا ہے کہ وہ بھارت کے خلاف اپنی نفرت ظاہر کرنے کے لیے لمحوں اور موقعوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ سیمی فائنل میں بھارت کی ہار پر خوشی منانا ایک ایسا ہی موقعہ تھا کہ جب سکیورٹی پہروں کی پرواہ کئے بغیر لوگوں کا ہجوم سڑکوں پر جشن مناتے نظر آیا۔

سوال یہ ہے کہ برصغیر کے بٹوارے کی سات دہائیوں کے بعد بھی کشمیر میں اتنا غصہ کیوں ہے؟

ظاہر ہے اس کی کئی وجوہات ہیں جو تاریخ کے صفحوں پر رقم ہیں لیکن موجودہ حالات نے کشمیریوں میں ایک عجیب سی بےچینی پیدا کی ہے۔ انہیں اپنا وہ سب کچھ چھن جانے کا غم اندر سے کھائے جا رہا ہے جس کی ضمانت ہندوستان کے آئین میں دی گئی تھی۔ وہ چاہے کشمیر کی مسلم اکثریت برقرار رکھنے کی گارنٹی ہو, شہریت کا سوال ہو یا اندرونی خودمختاری کا وعدہ ہو۔۔۔۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کی دوسری بار حکومت کی  تشکیل کے بعد کشمیر میں شدید کشمکش کا عالم ہے۔ کسی بھی شخص سے پوچھیے تو وہ فورا جواب دے گا ’جب یہ تاثر جان بوجھ کر پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہو کہ کشمیر میں جاری علیحدگی کی تحریک دراصل دہشت گردی ہے جس کو کبھی القاعدہ تو کبھی دولت اسلامیہ سے جوڑا جاتا ہے، مقامی عسکری پسند نوجوانوں کو گھروں میں محصور  کرکے بارود سے اڑایا جاتا ہو، سینکڑوں پتھر بازوں کو جیلوں میں قید رکھا گیا ہو گاؤں اور دور دراز علاقوں میں آبادیوں کو ہراساں کرنے کے مسلسل الزامات آ رہے ہوں تو ایسے حالات میں ہمارا ردعمل کیا ہوگا؟‘

بھارت نے سیمی فائنل کیا ہارا کہ کشمیر میں جیسے خوشی کی لہر دوڑ گئی اور نیوزی لینڈ کی جیت پر جشن  کے پٹاخے پھوڑنے لگے۔

میں نے جب 14 برس کے عمر سے پوچھا کہ وہ بھارت کی ہار پر اتنا خوش کیوں ہے تو اس نے سکیورٹی فورسز کی موجودگی میں اونچی آواز میں کہا ’میں اپنے دل کی نفرت کو باہر نکالنا چاہتا ہوں اور میں ان فورسز کے جوانوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ تم میری زمین پر قبضہ کرسکتے ہو میرے دل و دماغ پر نہیں جس پر صرف آزادی لکھا ہے۔‘ لڑکے کی آواز وہاں موجود سکیورٹی فورسز کان لگا کر سن رہے تھے۔ انہوں نے ان سنی کر دی کیونکہ وہ بھی بھارت کی جیت پر پٹاخے پھوڑنے کی صبح سے تیاری کر رہے تھے۔

’کیا آپ کو ان سے ڈر نہیں لگتا ہے؟‘ میں نے عمر سے پھر پوچھا۔

’ڈر کس بات کا کہ یہ گولی ماریں گے؟ میں مرنے سے اب نہیں ڈرتا اور ان کی گولی سے مرنا میری شہادت ہے۔۔۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میں نے اس لڑکے کی آنکھوں میں خوف کی کوئی جھلک نہیں دیکھی بلکہ غصے کی بڑھکتی آگ سلگتی دکھائی دی جو کشمیر کو اندر ہی اندر راکھ کرتی جا رہی ہے اور جس کی ذمہ دار حکومت کی ان پالیسیوں کو ٹھہرایا جاسکتا ہے جو کشمیر کو کنٹرول کرنے کے لیے کبھی سات لاکھ فوجیوں کو ہر دروازے پر پہرے داری پر رکھنا ہے یا قومی شاہراہ کو سول ٹریفک کے لیے بند کرکے ہندوستان کے لاکھوں امرناتھ یاتریوں کے لیے مخصوص رکھنا ہے یا پھر کشمیری قیادت کو بند کرکے دلی سے جمہوریت کی آڑ میں ہندو افسروں کو تعینات کرنا ہے۔ مگر ان اقدامات سے جو آگ کشمیر کے اندر سلگ رہی ہے وہ کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے اور بھارت کی سیمی فائنل میں ہار کا جشن منانا اس کا ایک ٹریلر ہوسکتا ہے۔

کشمیر سے متعلق مشہور تاریخ ’راج ترنگنی‘ میں لکھا ہے ’کشمیر کے لوگ بڑے نرم مزاج اور جذباتی ہیں, پیار و محبت سے اپنا سب کچھ نچھاور کرنے پر فورا تیار ہوجاتے ہیں اور ان کا دل صرف پیار سے جیتا جاسکتا ہے۔ اگر ان کو زور زبردستی زیر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ان کا انتقام انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔ ماں بیٹے کو نہیں بخشتی اور بیٹی باپ کو پچھاڑ دیتی ہے‘..... جب بھی کشمیر کا ذکر ہوتا ہے تو بھارتی اس تواریخ کا حوالہ دیتے ہیں لیکن اس میں کیا لکھا ہے اس پر آنکھیں موند لیتے ہیں اور جب میچ کی ہار پر کشمیر میں پٹاخے پھوڑنے کی آواز آتی ہے تو سرکاری افسروں کی بس نیند اڑ جاتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر