مردان: لگڑ بگڑ کے بچوں پر حملے کی خبریں افواہیں یا سچ؟

سوشل میڈیا پر مردان میں ایک بچی کے مرنے اور ایک بچے کے زخمی ہونے کی ذمہ داری لگڑ بگڑ پر ڈالی جا رہی ہے۔ تاہم کیا واقعی ایسا ہے؟

مردان: کھیت میں بچے پر حملے کے بعد علاقہ مکین جائے وقوعہ پر موجود ہیں۔ (تصویر: مردان وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ)

صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع مردان میں رواں مہینے دو مختلف واقعات میں ایک بچی کے قتل اور دوسرے بچے کے زخمی ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک حلقہ جنگلی جانور لگڑ بگڑ (ہائینا) کو مبینہ طور پر ان واقعات کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے۔

ان واقعات کے بعد بعض علاقوں میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے جبکہ سوشل میڈیا پر عوام سے اپنے بچوں کو لگڑ بگڑ سے محفوظ رکھنے کی اپیل کی جا رہی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے والی دو تصاویر میں ایک تقریباً چھ سالہ مردہ بچی اور ایک آٹھ سالہ زخمی بچے سدیس کے گلے کا بایاں جانب کاٹا گیا ہے جبکہ گال کا بایاں جانب زخمی نظر آ رہا ہے۔

تاہم انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود مردان میڈیکل کمپلیکس کی طبی رپورٹ کے مطابق سدیس ’کتے کے کاٹنے سے زخمی ہوا۔‘

سوشل میڈیا پر لگڑ بگڑ کے حوالے سے قیاس آرئیوں کے بعد انڈپینڈنٹ اردو نے حقائق جاننے کے لیے مردان کے محکمہ وائلڈ لائف سے رابطہ کیا تو محکمے کے ضلعی افسر (ڈی ایف او) کرامت شاہ نے بتایا کہ وہ اس تمام صورت حال سے آگاہ ہیں اور ڈپٹی کمشنر مردان نے بھی اس بابت ان سے رابطہ کرکے حقائق جاننے کے احکامات جاری کیے تھے۔

کرامت نے بتایا کہ انہوں نے مردان کے علاقے تخت بائی میں زخمی بچے کے گھر جا کر اور علاقہ مکینوں سے ابتدائی معلومات حاصل کیں۔

ان کے مطابق: ‘بچے کے والد نے لاعلمی کا اظہار کیا اور کوئی ایسا ثبوت نہ دے سکے جس سے ہم لگڑ بگڑ کی موجودگی اور بچے پر حملے کا پتہ لگا سکتے۔ ان کا بیان ایک ویڈیو کی شکل میں ہم نے محفوظ کر لیا ہے۔‘

کرامت نے انڈپینڈںٹ اردو سے ایک ایسی ویڈیو بھی شیئر کی جو ان کے محکمے نے دوران تفتیش ریکارڈ کی تھی۔

اس ویڈیو میں گاؤں کے ایک نوجوان نے عینی شاہد ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا: ’میں نے گیدڑ کی طرح ایک لمبے منہ والے جانور کو دیکھا، جو بچے پر حملہ کرنے والا تھا کہ میں نے بچے کو آواز دی اور وہ کھیتوں کی طرف بھاگ نکلا۔ اس کے پیروں کے نشان اب بھی کھیت میں تازہ ہیں۔‘

ڈی ایف او نے بتایا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ گیدڑ یا کوئی اور جانور ہو لیکن لگڑ بگڑ نہیں ہوسکتا۔ ‘ہائینا تخت بائی میں موجود نہیں۔ وہ ایک عاجز جانور ہے، جو انسانوں کو ہدف نہیں بناتا۔

’دوسری اہم بات یہ کہ متاثرہ بچوں کے زخموں کے نشانات گیدڑ، کتے یا لگڑ بگڑ کے کاٹنے کے معلوم نہیں ہوتے بلکہ کسی تیز دار آلے جیسے کہ بلیڈ وغیرہ کے نشانات معلوم ہوتے ہیں لہٰذا ان واقعات کی مزید تہہ میں جانے کی ضرورت ہے۔‘

کرامت کے مطابق رجوع کرنے پر ان کے دفتر نے یوٹیوبرز اور فیس بک پیجز چلانے والوں کو آگاہ کیا تھا کہ ان حملوں کے پیچھے لگڑ بگڑ نہیں لیکن انہوں نے پھر بھی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا اور جعلی خبریں چلائیں۔

مردان کے محکمہ وائلڈ لائف نے ڈپٹی کمشنر مردان کو لکھے گئے ایک خط میں موقف اختیار کیا کہ محکمہ متاثرہ خاندان سمیت تمام دیگر نکات کو جاننے کی کوشش کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ چونکہ ہائینا رات کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لہذا وہ صرف رات کے وقت نکلتا ہے جبکہ یہ واقعہ دن کے تقریباً 11 بجے کے قریب پیش آیا۔

خط کے مطابق ’مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لیے علاقہ مکینوں کو ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا طریقہ سمجھا دیا گیا ہے۔‘

پاکستان میں لگڑبگڑ کہاں اور کتنی تعداد میں پایا جاتا ہے؟

وائلڈ لائف آف پاکستان کی ویب سائٹ کے مطابق دھاری دار لگڑبگڑ بلوچستان اور سندھ کے علاوہ خیبر پختونخوا کے بعض علاقوں مثلاً مردان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں پایا جاتا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے یہ معلومات ’میملز آف پاکستان‘ نامی کتاب سے لی ہیں جو 1977 میں لکھی گئی تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ ڈیٹا اب بہت حد تک زائد المیعاد ہو چکا ہے کیوں کہ اس کے بعد پاکستان کی آبادی میں بہت اضافہ اور جنگلی حیات کو میسر رقبے میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

یونیورسٹی آف کوینز لینڈ نے 2001 میں سندھ کے کیرتھر نیشنل پارک میں لگڑبگڑ کی تعداد جاننے کے لیے ایک سٹڈی کی تھی۔ چار ماہ کے دوران انہیں کوئی لگڑبگڑ نظر نہیں آیا، البتہ اس کے کچھ کھرے ضرور ملے، جن سے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس علاقے میں آٹھ کے لگ بھگ لگڑبگڑ موجود ہیں۔

2014  میں وائلڈ لائف پاکستان نے فیس بک پر ایک لگڑبگڑ کی لاش کی تصویر لگائی جسے بلوچستان کے علاقے موسیٰ خیل میں ہلاک کیا گیا تھا۔

ان معلومات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ لگڑبگڑ پاکستان میں موجود ضرور ہے مگر اس کی تعداد انتہائی قلیل ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان