پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل پر تشدد ہوا یا نہیں؟

عام تاثر ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان اپنے چیف آف سٹاف شہباز گل پر تشدد کا ذکر کرتے ہوئے غلطی سے حوالات کی بجائے جیل کہہ گئے۔

شہباز گل دو روز تک جسمانی ریمانڈ پر پولیس حراست میں رہنے کے بعد جمعے سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ہیں (تصویر: شہباز گل/ فیس بک)

صوبہ پنجاب كے وزیر داخلہ کرنل (ر) محمد ہاشم ڈوگر نے منگل كو راولپنڈی كی اڈیالہ جیل کے دورے کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان کے زیر حراست چیف آف سٹاف شہباز گل سے ملاقات كے بعد پاكستان تحریک انصاف كے رہنما پر جسمانی تشدد کی تردید کی ہے۔

اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو میں کرنل (ر) محمد ہاشم ڈوگر نے، جن کے پاس پنجاب کا محکمہ جیل خانہ جات بھی ہے، کہا کہ ’شہباز گل بالکل ٹھیک ہیں اور جیل میں کسی کو بھی برہنہ کر کے تشدد کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘

تاہم کچھ ہی دیر بعد ٹوئٹر پر انہوں نے ایک اور بیان جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ شہباز گل پر اسلام آباد پولیس نے تشدد کیا ہے اور ان کی جان کو خطرہ ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے پیر کی رات پاکستانی نجی ٹی وی چینل جی این این پر اینکر پرسن فریحہ ادریس كو دیے گئے انٹرویو میں الزام عائد کیا تھا کہ ’ہمارا جب وكیل مل كے آیا اس (شہباز گل) كو، انہوں نے مجھے بتایا کہ ان كے ساتھ انہوں نے کیا کیا ہے، ننگا كر كے مارا ہے اس (شہباز گل) كو۔۔۔ ننگا كر كے جیل كے اندر انہوں نے اس (شہباز گل) كو مارا ہے۔‘

ہاشم ڈوگر کی جانب سے جاری وضاحتی ٹویٹ سے قبل منگل کی شام اڈیالہ جیل کے باہر جب ان کی توجہ سابق وزیر اعظم کے شہباز گل پر جیل میں مبینہ طور پر برہنہ کر کے تشدد سے متعلق بیان کی طرف دلوائی گئی تو صوبائی وزیر نے کہا کہ ’میں خود پی ٹی آئی چیئرمین سے مل کر صورت حال کی وضاحت کروں گا اور انہیں بتاؤں گا کہ ان کے چیف آف سٹاف پر جیل میں کوئی تشدد نہیں ہوا۔‘

’پنجاب کی کسی بھی جیل میں کسی بھی قیدی پر جسمانی تشدد کا سوال ہی نہیں اٹھتا اور ان قیدیوں میں شہباز گل بھی شامل ہیں۔‘

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گل دو روز تک جسمانی ریمانڈ پر پولیس حراست میں رہنے کے بعد جمعے سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ہیں۔

گذشتہ بدھ کی شام اسلام آباد پولیس نے شہباز گل کو بغاوت کے الزام میں اسلام آباد کے نواحی علاقے بنی گالہ میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائش گاہ کے قریب سے گرفتار کیا تھا۔

’زبان پھسل گئی ہو گی‘

اب سوال اٹھتا ہے کہ جب شہباز گل پر اڈیالہ جیل میں تشدد ہوا ہی نہیں تو سابق وزیر اعظم عمران خان نے ان کی پولیس كے ہاتھوں مار پیٹ کا دعویٰ کیوں کیا؟ اور وہ بھی ’برہنہ‘ کر کے۔

اردو زبان میں خبروں اور تجزیوں كی ویب سائٹ ’ہم سب‘ کے ڈائریکٹر نیوز آصف میاں (المعروف وصی بابا) کے خیال میں سابق وزیر اعظم عمران خان نے ٹی وی چینل جی این این سے انٹرویو میں ’حوالات‘ کی بجائے غلطی سے ’جیل‘ بول دیا ہو گا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ’اس قسم کی چھوٹی موٹی غلطیاں سیاسی لیڈروں سے تقریروں اور انٹرویوز میں ہو جایا کرتی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان تو بحیثیت وزیر اعظم بھی اس طرح کی کئی غلطیاں کر چکے ہیں۔‘

اس سلسلے میں میاں آصف نے جرمنی اور جاپان كے پڑوسی ملک ہونے اور حضرت عیسیٰ کا تاریخ میں بہت کم ذکر ہونے جیسی مثالوں کی طرف توجہ دلائی۔

ان کا کہنا تھا کہ جس وقت عمران خان فریحہ ادریس کو یہ انٹرویو دے رہے تھے اس وقت تک شہباز گل کو جیل میں دو تین دن گزر چکے تھے، اور شاید اسی وجہ سے ان کے منہ سے لفظ ’جیل‘ نکل گیا۔

’مجھے یقین ہے كہ وہ اپنے چیف آف سٹاف پر تشدد کی بات حوالات یا اسلام آباد پولیس کی حراست کے حوالے سے کر رہے تھے۔‘

اس سلسلے میں پاکستان تحریک انصاف میں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ سے رابطوں کی ذمہ دار ٹیم کے رکن احمد جنجوعہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’پنجاب کے وزیر داخلہ نے اڈیالہ جیل سے متعلق وضاحت کی، جس کا مقصد سوشل میڈیا پر شہباز گل پر جیل میں تشدد کے تاثر کو زائل کرنا ہو سکتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’شہباز گل نے اسلام آباد کے مجسٹریٹ کے سامنے پیشی میں ان پر تشدد کی شکایت کی تھی اور اپنے جسم پر موجود زخم بھی دکھائے تھے۔‘

شہباز گل کے وکیل چوہدری فیصل کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ ان کے ’موکل پر تشدد ہوا جو اسلام آباد پولیس کی حراست میں کیا گیا اور مار پیٹ  کی حد تک عمران خان کا بیان بالکل درست ہے۔‘

سابق وزیر اعظم کا شہباز گل پر مبینہ تشدد کے حوالے سے جیل کے ذکر کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وکلا نے پی ٹی آئی کے زیر حراست رہنما سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے بعد عمران خان سے شہباز گل پر مبینہ تشدد کا ذکر کیا ہو۔ جس سے جماعت کے سربراہ نے تاثر لیا کہ ان کے چیف آف سٹاف کی مار پیٹ عدالتی (جوڈیشل) حراست کے دوران ہوئی۔

کیا شہباز گل پر تشدد ہوا؟

گذشتہ جمعے کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ کے ختم ہونے پر شہباز گل کو جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے پولیس تشدد کی شکایت کی تھی۔

اس وقت کمرہ عدالت میں موجود صحافیوں کے مطابق شہباز گل نے اپنی قمیص اٹھا کر جج کو زخم دکھانے کی کوشش بھی کی۔

سینیئر کورٹ رپورٹر ثاقب بشیر، جو اس وقت کمرہ عدالت میں موجود تھے، نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں شہباز گل کی کمر پر ریشز (سرخ دھبے) دیکھنے کی تصدیق کی۔

’شہباز گل نے اپنی قمیص كا پچھلا دامن تھوڑا سا اونچا كیا تو میں نے ان كی كمر پر كچھ ریشز دیكھے۔‘

شہباز گل کی گرفتاری کے اگلے دن جب انہیں اسلام آباد کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا تو ان کے وکیل چوہدری فیصل نے اپنے موکل کے کپڑوں پر ’خون کے دھبوں‘ کی موجودگی کا بھی کہا۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مجھے نظر آرہا تھا کہ ان کے کپڑوں پر خون کا نشان ہے۔‘

عمران خان كے چیف آف سٹاف كے ان پر مبینہ پولیس تشدد سے متعلق الزامات کے بعد وفاقی حکومت نے گذشتہ ہفتے کے دوران ہی پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے تین ڈاکٹروں پر میڈیکل بورڈ تشکیل دیا، جس کی 11 اگست کو آنے والی رپورٹ کے مطابق وہ طبی طور پر تندرست تھے اور ان کے جسم پر کوئی نشانات نہیں پائے گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم شہباز گل نے عدالت کے روبرو الزام لگایا کہ ان کا کوئی طبی معائنہ نہیں کیا گیا اور استغاثہ کی جانب سے عدالت میں پیش کی جانے والی ان کی میڈیکل رپورٹ ’جھوٹی‘ ہے۔

شہباز گل كے خلاف بغاوت كے مقدمے كے تفتیشی افسر طلعت محمود نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا كہ ’وفاقی حکومت نے دوسرا میڈیکل بورڈ بھی تشکیل دیا جس نے ملزم کا معائنہ پیر کو کرنا تھا۔‘

’اگر ان کا دعویٰ ہے کہ ان پر تشدد ہوا ہے تو وہ پیر کو دوسرے میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش کیوں نہیں ہوئے؟‘

تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ ’شہباز گل کے جسم پر زخم یا کپڑوں پر خون کا کوئی دھبہ نہیں تھا اور ان پر پولیس کی حراست میں کسی قسم کا کوئی تشدد نہیں کیا گیا۔‘

تاہم اس سلسلے میں چوہدری فیصل كا كہنا تھا كہ ان كے موكل كی ’جان كو خطرہ ہے اور اسی لیے انہیں اسلام آباد پولیس كے حوالے كرنے كا رسک نہیں لیا جا سکتا تھا۔‘

یاد رہے کہ شہباز گل کا مقدمہ وفاقی حکومت کی جانب سے قائم کیا گیا ہے جبکہ وہ جمعے سے اڈیالہ جیل میں موجود ہیں جو پنجاب حکومت کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔

شہباز گل کے وکیل چوہدری فیصل کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی حکومت اور اسلام آباد پولیس شہباز گل پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن جائیں اور اسی لیے ’ہم نے انہیں طبی معائنے کی غرض سے وفاقی حکومت کے حوالے کیا جانا مناسب نہیں سمجھا۔‘

اڈیالہ جیل اہلکار برطرف

پنجاب کے وزیر برائے پارلیمانی امور راجہ بشارت نے منگل کی شام ایک ٹویٹ میں تصدیق کی کہ اڈیالہ جیل کی پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) اور سپرانٹنڈنٹ کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ڈی آئی جی اڈیالہ جیل رانا عبدالرؤف اور سپرانٹنڈنٹ چوہدری اصغر گجر کو اڈیالہ جیل میں شہباز گل کے معاملے پر مجرمانہ خاموشی اور غیر قانونی کارروائی پر ہٹایا گیا ہے۔‘

اس سے قبل پنجاب کے وزیر جیل خانہ جات کرنل (ر) محمد ہاشم ڈوگر نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ’شہباز گل کو پہلی رات اڈیالہ جیل کی چکی میں رکھا گیا تھا جس کے باعث اہلکاروں کو برطرف کیا گیا۔‘

قیدی پر تشدد جرم ہے

دستور پاکستان کے آرٹیکل 4، 9 اور 10 تمام شہریوں بشمول زیر حراست افراد کی جان، جسم، مال، عزت اور آزادی کے خلاف کسی بھی غیر قانونی عمل کی سختی سے ممانعت کرتے ہیں جبکہ پاکستان ایسے کئی بین الاقوامی معاہدوں اور چارٹرز کا دستخط کنندہ ہے جن کے تحت عام شہریوں کے علاوہ قیدیوں پر تشدد کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان