شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست دوبارہ سننے کا حکم

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کی درخواست منظور کرتے ہوئے مخفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’جوڈیشل مجسٹریٹ کے آرڈر کے خلاف درخواست قابل سماعت ہے۔ سیشن جج درخواست سن کر اس کا میرٹ پر فیصلہ کریں۔‘

10 اگست کو اسلام آباد کی مقامی عدالت میں پیشی کے موقعے پر لی گئی پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کی تصویر (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیشن جج کو تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گل کے مزید جسمانی ریمانڈ کی نظرثانی درخواست دوبارہ سننے کا حکم دے دیا۔

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کی درخواست منظور کرتے ہوئے مخفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’جوڈیشل مجسٹریٹ کے آرڈر کے خلاف درخواست قابل سماعت ہے۔ سیشن جج درخواست سن کر اس کا میرٹ پر فیصلہ کریں۔‘

اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ میں تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل کے مزید جسمانی ریمانڈ کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے جسٹس عامر فاروق نے کہا تھا ’یہ ہائی کورٹ کا اختیار نہیں کہ وہ دیکھے کہ ملزم کا کتنا ریمانڈ دینا ہے۔ ہم نے پہلے اس کے قابل سماعت ہونے کا فیصلہ کرنا ہے۔‘

آج اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے شہباز گل سے متعلق دو درخواستوں کی سماعت کی۔

پہلی درخواست ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد کی جانب سے تھی جس میں استغاثہ نے جسمانی ریمانڈ نہ دینے کے مجسٹریٹ کے فیصلے کو چیلنج کر رکھا ہے اور عدالت سے شہباز گل کے مزید جسمانی ریمانڈ لینے کی استدعا کی گئی تھی جبکہ دوسری درخواست شہباز گل کی جانب سے اخراج مقدمہ کی تھی۔

سماعت کے آغاز میں شہباز گل کیس میں وکلا نے سیاسی بات کرنا چاہی تو قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے انہیں سیاسی بات کرنے سے روک دیا۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’ملزم کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے ہے۔ عدالت نے صرف قانونی نکتے کو دیکھنا ہے۔ یہاں سیاسی بات نہ کریں قانون اور میرٹ پر بات کریں۔‘

 انہوں نے کہا کہ ’یہ درست ہے کہ جس کا کیس ہے وہ پولیٹیکل فِگر ہے، وہ سیاسی جماعت کا عہدیدار ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جسٹس عمر فاروق نے مزید کہا کہ ’وہ جو بھی ہیں اس عدالت کے سامنے یہ بات بے معنی ہے۔ کورٹ کے سامنے قانونی کیس ہے قانون کے مطابق دیکھنا ہے۔ عدالت کو یہ بتائیں کہ جوڈیشل مجسٹریٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کیسے قابل سماعت تھی؟ جب ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جائے پھر تو بات ہی ختم ہو گئی۔‘

جسٹس عامر فاروق نے مزید کہا کہ ’کسی ملزم کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کرنا سنجیدہ معاملہ ہے۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ سیشن عدالت کا ایک فورم موجود ہے کہ وہ سپروائز کر لے۔ سیشن عدالت دیکھ لے کہ جوڈیشل مجسٹریٹ نے کوئی غلط فیصلہ تو نہیں کر دیا۔ ابھی ریمانڈ دینے کی درخواست کے میرٹس پر نہیں جا رہے۔‘

استغاثہ کی جانب شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ’ہائی کورٹ ریمانڈ تو نہیں دیتی۔ تفتیش کرنا پولیس کا کام ہے اور اس کو سپروائز مجسٹریٹ نے ہی کرنا ہے۔ ملزم ہمیشہ عدالت کا فیورٹ چائلڈ (پسندیدہ بچہ) ہوتا ہے۔ ابھی اس حد تک دلائل سن رہا ہوں کہ سیشن کورٹ میں اپیل سنی جا سکتی تھی یا نہیں؟‘

شہباز گل پر بغاوت پر اکسانے کے الزام پر قائم مقدمے کو خارج کرنے کی درخواست پر درخواست گزار کی جانب سے شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے دلائل دیے۔

ایڈووکیٹ شعیب شاہین نے کہا کہ ’شہباز گل کے بیان پر سیاق سباق سے ہٹ کر کارروائی کی گئی۔ اس سے پہلے جیگ برانچ(جی ایچ کیو شعبہ قانون) نے ایڈووکیٹ ایمان مزاری کے خلاف مقدمہ درج کرایا تھا۔ یہ مقدمہ جیگ برانچ نے نہیں حکومتی ایما پر درج کرایا گیا۔‘

 شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ ’حکومتی وزرا خود اس سے زیادہ سخت زبان استعمال کرتے رہے ہیں۔‘

عدالت نے شہباز گل کی اخراج مقدمہ کی درخواست پر آئی جی اسلام آباد، ایس ایس پی، ایس ایچ او تھانہ کوہسار کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ اسلام آباد کی ضلعی عدالت نے تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل کو بغاوت پر اکسانے کے مقدمے میں دو روزہ جسمانی ریمانڈ کے بعد 12 اگست کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست