چین کا امریکہ پر ’لاکھوں‘ سائبر حملوں کا الزام

چین نے خاص طور پر این ایس اے کے آفس آف ٹیلرڈ ایکسیس آپریشنز (ٹی اے او) شیان شہر میں نارتھ ویسٹرن پولی ٹیکنیکل یونیورسٹی میں دراندازی کا الزام لگایا ہے۔

شمال مغربی چین کے صوبہ شانزی کے ژیان شہر میں واقع شمال مغربی پولی ٹیکنیکل یونیورسٹی کے اندر 5 ستمبر 2022 کو چہرے پر ماسک پہنے ایک طالبہ عمارت میں چہل قدمی کر رہی ہے۔ چین نے پیر کو ہی واشنگٹن پر الزام لگایا کہ وہ ایک یونیورسٹی میں کمپیوٹرز سے ڈیٹا چوری کر رہا ہے (تصویر: اے پی)

چین نے پیر کو امریکہ پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ چین پر ’لاکھوں کی تعداد میں سائبر حملے‘ کر رہا ہے اور تحقیقی کام کرنے والی سرکاری یونیورسٹی کے ڈیٹا سمیت بڑی مقدار میں حساس ڈیٹا چوری کرنے میں مصروف ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق واشنگٹن نے بیجنگ پر امریکی کاروباری اداروں اور سرکاری ایجنسیوں کے خلاف سائبر حملوں کا الزام عائد کیا تھا۔

ڈیٹا چوری کا معاملہ ان مسائل میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے حالیہ سالوں میں دونوں طاقتوں کے درمیان تعلقات تیزی سے خراب ہوئے ہیں۔

چین نے مسلسل امریکی دعوؤں کی تردید کی ہے اورجواب میں مبینہ امریکی سائبر جاسوسی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تاہم چین نے مخصوص حملوں کے بارے میں کبھی کبھار ہی کھلے عام بات کی ہے۔

چین کے نیشنل کمپیوٹر وائرس ایمرجنسی ریسپانس سینٹر (سی وی ای آر سی) نے پیر کو ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ’حالیہ برسوں میں چین میں نیٹ ورک اہداف پر بدنیتی پر مبنی لاکھوں حملے کرنے میں ملوث ہے۔‘

چین نے خاص طور پر این ایس اے کے آفس آف ٹیلرڈ ایکسیس آپریشنز (ٹی اے او) شیان شہر میں نارتھ ویسٹرن پولی ٹیکنیکل یونیورسٹی میں دراندازی کا الزام لگایا ہے۔

یونیورسٹی کو چین کی وزارت صنعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی طرف سے مالی امداد فراہم کی جاتی ہے اور یہ ایروناٹیکل اور خلائی تحقیق میں مہارت رکھتی ہے۔

سی وی ای آر سی نے الزام لگایا کہ ٹی اے او  نے یونیورسٹی کے نیٹ ورکس میں دراندازی کی اورسرورز، راؤٹرز اور نیٹ ورک سوئچز سمیت ’ہزاروں نیٹ ورک ڈیوائسز کا کنٹرول‘ سنبھال لیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ درجنوں سائبر ہتھیاروں اور سن آپریٹنگ سسٹم میں پہلے کی نامعلوم خامیوں کا استعمال کرتے ہوئے امریکی یونٹ نے پاس ورڈز اور کلیدی نیٹ ورک ڈیوائسز کے آپریشنز سمیت بنیادی تکنیکی ڈیٹا تک رسائی حاصل کی ہے۔

سی وی ای آر سی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ٹی اے او نے نے حالیہ سالوں میں ’140 گیگا بائٹس سے زیادہ انتہائی اہم ڈیٹا چوری کیا ‘اور اس نے یورپ اور جنوبی ایشیا کے گروپس سے مدد حاصل کی۔

چین کی نجی سائبر سکیورٹی فرم کی ہو 360 نے اس رپورٹ کی تیاری میں معاونت کی۔

این ایس اے نے تبصرے کے لیے اے ایف پی کی درخواست کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا ہے لیکن اس سے قبل امریکہ ایسے ہی الزامات چین پر عائد کرتا رہا ہے۔

جون میں شیان کے حکام نے کہا تھا کہ انہوں نے یونیورسٹی میں سائبر حملے کی اطلاع دی تھی جس میں بیرون ملک موجود ہیکنگ گروپس اور غیر قانونی عناصر کے ملوث ہونے کے شواہد پائے گئے تھے۔

پیر کوشائع ہونے والے تبصرے کے مطابق یونیورسٹی کے عہدے دار نے سرکاری ٹیلی ویژن سی سی ٹی وی کو بتایا کہ سائبر حملوں کے نتیجے میں ’ہمارے سکول کے معمول کے مطابق کام اور معمولات زندگی کے لیے بڑے اور اہم خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔‘

گذشتہ سال واشنگٹن نے بیجنگ پر مائیکروسافٹ کے ای میل سافٹ ویئر پر بڑا حملہ کرنے کا الزام لگایا تھا جس میں کم از کم 30 ہزار امریکی ادارے متاثر ہوئے جن میں مقامی حکومتیں اور دوسرے ممالک کے صارفین بھی شامل تھے۔

چین نے ان الزامات کی تردید کی اور جواب میں کہا کہ واشنگٹن سائبر جاسوسی کا عالمی چیمپئن ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا