مڈی واٹرز: ’ایرانی سائبرگروہ دیگر ملکوں میں ادارے کو نشانہ بنارہا ہے‘

امریکہ کے سکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ’مڈی واٹرز‘ نامی یہ گروہ دیگر ملکوں میں مواصلات، دفاع، مقامی حکومتوں اور تیل اور گیس جیسے شعبہ جات کو نشانہ بناتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق مڈی واٹرز ایرانی حکومت کا حمایت یافتہ ایک گروہ ہے جو سائبر جاسوسی اور سائبر آپریشنز جیسے عوامل میں ملوث ہے(تصویر: پکسابے)

امریکہ کے سکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ایران سے تعلق رکھنے والے ’مڈی واٹرز‘ نامی عناصر سائبر آپریشنز کے ذریعے ایشیا، افریقہ، یورپ اور شمالی امریکہ میں حکومتی اور نجی شعبوں سے تعلق رکھنے والے اداروں اور تنظیموں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی اداروں نے جمعرات کو اس حوالے سے ایک نوٹس بھی جاری کیا ہے۔

فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) اور سائبر سکیورٹی اینڈ انفراسٹرکچر سکیورٹی ایجنسی (سی آئی ایس اے) کے علاوہ برطانوی اور دوسرے امریکی اداروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ’مڈی واٹرز‘ نامی ایرانی عناصر کا مشاہدہ کیا ہے، جو مواصلات، دفاع، مقامی حکومتوں اور تیل اور قدرتی گیس کے شعبوں میں مشکوک سائبر آپریشنز سرانجام دے رہے ہیں۔

اسی حوالے سے امریکی ادارے سی آئی ایس اے کی ویب سائٹ پر جاری کی جانے والی مال ویئر اینالسس رپورٹ (ایم اے آر) میں مڈی واٹرز کے زیر استعمال 23 طریقوں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تجزیہ کرنے کے اس عمل میں ایف بی آئی، سائبر سکیورٹی اینڈ انفراسٹرکچر سکیورٹی ایجنسی، یو ایس سائبر کمانڈ سائبر نیشنل مشن فورس، برطانوی ادارہ نیشنل سائبر سیکورٹی سینٹر اور این ایس اے شامل تھے۔

رپورٹ کے مطابق مڈی واٹرز ایرانی حکومت کا حمایت یافتہ ایک گروہ ہے، جو سائبر جاسوسی اور سائبر آپریشنز جیسے عوامل میں ملوث ہے۔

تجزیے میں مزید کہا گیا کہ یہ گروہ مواصلات، دفاع، مقامی حکومتوں اور تیل اور گیس جیسے شعبہ جات کو نشانہ بناتا ہے اور یہ ایشیا، افریقہ، یورپ اور شمالی امریکہ سے خطوں میں کارروائیاں کرتا ہے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ میں ایران کے مشن نے ان الزامات کو ’بے بنیاد‘ قرار دیا ہے۔

ایرانی مشن کے ترجمان کے مطابق: ’یہ الزامات ایران کے خلاف جاری نفسیاتی جنگ کا حصہ ہیں اور ان کی کوئی حقیقی یا قانونی بنیاد نہیں ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا