افغانستان میں لڑکیوں کے لیے چند سکول کھل گئے

افغان صوبے پکتیا کے کچھ حصوں میں چھٹی جماعت سے اوپر کی طالبات کے سکول دوبارہ کھول دیے گئے۔

25 جولائی، 2022 کو افغانستان کے ایک نامعلوم مقام میں لی گئی تصویر جس میں ایک خفیہ سکول میں طالبات زیر تعلیم ہیں (اے ایف پی)

افغانستان کے صوبہ پکتیا کے کچھ حصوں میں چھٹی جماعت سے اوپر کی طالبات کے سکول دوبارہ کھول دیے گئے ہیں۔

طلوع نیوز نے ایک ٹویٹ شیئر کی ہے جس میں صوبے کے محکمہ اطلاعات و ثقافت کے سربراہ مولوی خالق احمد زئی سکول کھلنے کا اعلان کر رہے ہیں۔

ان کے مطابق یہ فیصلہ مقامی سکول کی قیادت نے کیا اور کسی سرکاری حکم پر مبنی نہیں۔

بی بی سی پشتو کے مطابق تقریباً ایک سال کی تاخیر کے بعد پکتیا کے بعض علاقوں میں متعدد سکول دوبارہ کھولے گئے ہیں۔

پکتیا کے مرکز گردیز اور چمکانی کے اضلاع میں مقامی لوگوں نے بی بی سی کو اس بات تصدیق کی۔

صوبہ پکتیا کے مقام گردیز کے رہائشی عبدالحق فاروق کا کہنا ہے کہ انہیں خوشی ہے کہ ان کی لڑکیاں اپنے سکولوں میں واپس جا رہی ہیں۔

’سکول کھل چکے ہیں، ہمارے بچے اپنے سکول میں بہت خوش ہیں، ہم خوش ہیں۔ ہر باپ اور ہر خاندان کو امید ہے کہ ان کے بچے علم کے زیور سے آراستہ ہوں گے۔

’ہمارے لیے، ہمارے بچوں اور اپنے ملک کی خاطر، یہ ہم سب کے لیے فخر کی بات ہے۔ جس نے بھی یہ کیا ہے، یہ پورے افغانستان کے لیے اچھا ہے۔‘

پکتیا کے دو دیگر رہائشیوں امل شمر اور فرید احمد زئی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے علاقے میں صرف لڑکیوں کے لیے سکول کھولے گئے ہیں۔

دونوں نے امید ظاہر کی کہ یہ کھلے رہیں گے۔

پژواک نیوز ایجنسی نے مقامی حکام کے حوالے سے پکتیا میں چھٹی جماعت سے اوپر کے لڑکیوں کے سکول کھولنے کی خبر دی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چمکانی کے سمین اکبری گرلز ہائی سکول میں سینکڑوں لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔

 تاہم طالبان کی حکومت آنے کے بعد ملک کے دیگر حصوں کی طرح چھٹی جماعت سے اوپر کی لڑکیوں کو اس ہائی سکول میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن اب مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سکول کو کچھ دنوں سے دوبارہ کھولا گیا ہے۔

چمکانی کے ایک استاد ہاشم خیل ہاشمی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اگرچہ اس علاقے کو کوئی سرکاری خط نہیں بھیجا گیا، تاہم لڑکیوں کے لیے ہائی سکول کھول دیا گیا اور کوئی اس کی مخالفت نہیں کرتا۔‘

افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارت تعلیم نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی رائے ظاہر نہیں کی۔ تاہم پکتیا میں طالبان کے مقامی عہدے دار اس خبر کی تصدیق کرتے ہیں۔

صوبے کے اطلاعات و ثقافت کے سربراہ مولوی خالق احمد زئی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پورے پکتیا میں ایسے پانچ سکول کھولے گئے ہیں۔‘

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سکول اصل میں کچھ دن پہلے کھولا گیا تھا اور سوشل میڈیا پر اس کا خیرمقدم کیا گیا۔

پکتیا کے علاوہ کچھ دوسرے صوبوں میں بھی چھٹی جماعت تک لڑکیوں کے سکول کھولے جا چکے ہیں لیکن افغانستان میں طالبان حکومت نے کھولنے کے حوالے سے کوئی سرکاری موقف نہیں دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا