انڈیا: عالمی این جی او کے دفاتر پر ٹیکس حکام کے چھاپے

کانگریس کے سابق وزیر جے رام رمیش کے مطابق ’یہ انتہائی ظالمانہ اقدام ہے کہ تحقیق اور وکالت کی تنظیموں اور آزاد چیرٹی ٹرسٹ پر مودی اور ان کے معاون امیت شاہ کے کہنے پر چھاپے مارے گئے ہیں۔‘

25 اکتوبر 2010 کو کرناٹکہ ریاست کے وزیر صحت کی رہائش گاہ پر انکم ٹیکس حکام کے چھاپے کے بعد انڈین پولیس اہلکار نگرانی کرتے ہوئے (فوٹو اے ایف پی)

انڈیا میں ٹیکس حکام نے بڑی کارروائی کے دوران دو غیر سرکاری اداروں اور متعدد آزاد میڈیا کی تنظیموں کو فنڈ فراہم کرنے والی فاؤنڈیشن کے دفاتر کے ایک سو سے زیادہ مقامات پر چھاپے مارے ہیں۔

ٹیکس حکام نے مالیاتی لین دین میں بے ضابطگیوں کے الزامات کو بنیاد بناتے ہوئے عالمی این جی او آکسفیم، سینٹر فار پالیسی ریسرچ (سی پی آر)، ایک بڑے تھنک ٹینک اور انڈپینڈنٹ اینڈ پبلک سپریٹڈ میڈیا فاؤنڈیشن (آئی پی ایس ایم ایف) کے دفاتر پر چھاپے مارے۔ 

واضح رہے کہ آئی پی ایس ایم ایف کئی میڈیا آؤٹ لیٹس کو فنڈز فراہم کرتا ہے جن میں سے کچھ حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

ٹیکس حکام نے بدھ کو دارالحکومت نئی دہلی میں آکسفیم اور سی پی آر اور جنوبی شہر بینگلورو میں آئی پی ایس ایم ایف کے دفاتر پر مارے گئے چھاپوں ’تلاشی‘ اور ’سروے‘ کی کارروائی قرار دیا ہے۔

بھارت کے انگریزی اخبار ’دی انڈین ایکسپریس‘ کی رپورٹ کے مطابق ایک سینیئر عہدیدار، جن کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، نے بتایا کہ تلاشی کی یہ کارروائیاں کچھ ان۔ریکوکنائزڈ پولیٹیکل پارٹیز (آر یو پی پیز) کے خلاف کارروائی کے ایک حصے کے طور پر کی گئیں۔

سینیئر عہدیدار نے مزید بتایا: ’سیاسی جماعتوں کے خلاف ان میں سے کچھ تلاشی کی کارروائیاں کئی ریاستوں میں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں جب کہ کچھ کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ٹیکس حکام ایک سو سے زیادہ مقامات کی تلاشی لے رہے ہیں اور آنے والے دنوں میں بھی یہ کارروائیاں اور تحقیقات جاری رہیں گی۔‘

تلاشی کی یہ کارروائیاں مئی میں انڈین الیکشن کمیشن کی جانب سے غیر قانونی طور پر عطیات وصول کرنے والی 87 رجسٹرڈ ان۔ریکوکنائزڈ پولیٹیکل پارٹیز کے خاتمے کے مہینوں بعد سامنے آئی ہیں۔

کمیشن نے دو ہزار  174 آر یو پی پیز کی فہرست بھی فراہم کی جنہوں نے انکم ٹیکس ایکٹ 1961 کی متعلقہ دفعات اور عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 سمیت دو قوانین کے تحت محکمہ محصولات کو رپورٹس جمع نہیں کیں۔

کمیشن نے رواں سال جون میں قواعد کی خلاف ورزی کرنے والی جماعتوں کے خلاف اپنے ’گریڈڈ ایکشن‘ کے تحت 111 آر یو پی پیز کو رجسٹریشن کی فہرست سے نکال دیا تھا۔

عہدیداروں نے یہ بھی کہا کہ اس سروے کو ان کی فنڈنگ میں مبینہ ’بے ضابطگیوں‘ سے جوڑا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈین اخبار ’دا ہندو‘ کی رپورٹ کے مطابق ایک اور عہدیدار نے ’تلاشی‘ اور ’سروے‘ کے درمیان فرق کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ ’تلاشی‘ ایک جامع مشق تھی جس میں جائزہ لینے والے اداروں سے وابستہ تمام مقامات کا احاطہ کیا جا سکتا ہے اور دستاویزات، رقم اور قیمتی اشیا ضبط کی جا سکتی ہیں۔

مؤخر الذکر کے معاملے پر ان کا کہنا ہے کہ سروے کی کارروائی محدود ہے کیونکہ ایجنسی عام طور پر دفتری اوقات کے دوران تجارتی احاطے کا دورہ کرتی ہے اور صرف لین دین کے ریکارڈ کو ضبط کر سکتی ہے اور متعلقہ لوگوں سے وضاحت طلب کر سکتی ہے۔

دی انڈپینڈنٹ نے اس معاملے پر تبصرے کے لیے تینوں تنظیموں سے رابطہ کیا ہے تاہم ان کی طرف سے ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

اپوزیشن کی کانگریس پارٹی نے اس معاملے میں وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

کانگریس کے سابق وزیر جے رام رمیش نے کہا کہ یہ ’انتہائی ظالمانہ اقدام ہے کہ تحقیق اور وکالت کی تنظیموں اور آزاد چیرٹی ٹرسٹ پر مودی اور ان کے معاون وفاقی وزیر داخلہ امیت شاہ کے کہنے پر چھاپے مارے گئے ہیں۔‘

عالمی تنظیم کی ویب سائٹ کے مطابق ’آکسفیم انڈیا‘ دنیا بھر میں 21 رکنی کنفیڈریشن کا رکن ہے اور انڈین حکومت کے قوانین کے تحت ایک غیر منافع بخش تنظیم کے طور پر رجسٹرڈ ہے۔

گذشتہ سال دسمبر میں وفاقی حکومت نے غیر ملکی فنڈنگ کو کنٹرول کرنے والے ملکی قانون کے تحت آکسفیم انڈیا کا حاصل کردہ لائسنس منسوخ کر دیا تھا۔ حکومت نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ تنظیم نے بہت سی دیگر تنظیموں کی طرح لائسنس کی تجدید کے لیے درخواست نہیں دی تھی۔

تنظیم نے جنوری کے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’اس کی تجدید کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی اور حکومت کی جانب سے اس کی تجدید سے انکار ملک بھر کی 16 ریاستوں میں تنظیم کے جاری اہم انسانی اور سماجی کام کو شدید متاثر کرے گا۔‘

سی پی آر ایک نامور انڈین تھنک ٹینک ہے جس کی سربراہی کبھی معروف سکالر پرتاپ بھانو مہتا کرتے تھے جو وزیر اعظم مودی کے سخت ناقد رہے ہیں۔

اب اس کی سربراہی میناکشی گوپی ناتھ بطور چیئرپرسن اور یامینی آئر صدر اور چیف ایگزیکٹو کے طور پر کر رہے ہیں۔

تنظیم کی ویب سائٹ کے مطابق سی پی آر 1973 کے بعد سے انڈیا کے سرکردہ عوامی پالیسی تھنک ٹینکس میں سے ایک ہے۔

اس میں مزید بتایا گیا ہے کہ اسے وفاقی حکومت کی جانب سے ایک غیر منافع بخش تنظیم کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے اور یہ کہ یہ حکومت کے محکمہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے تحت ایک تسلیم شدہ ادارہ تھا اس کے علاوہ ایک اور سرکاری ادارہ ’انڈین کونسل فار سوشل سائنس ریسرچ‘ سے گرانٹ حاصل کرتا تھا۔

آئی پی ایس ایف ایم 2015 میں رجسٹرڈ ایک عوامی چیرٹی ٹرسٹ ہے جس کی ویب سائٹ کے مطابق یہ عوامی مفاد میں معلومات کی فراہمی کے لیے آزاد میڈیا اداروں کو گرانٹس کے ذریعے مالی امداد فراہم کرتا ہے۔

سینیئر ایڈیٹر ٹی این نینان کی سربراہی میں تنظیم سے گرانٹ حاصل کرنے والوں میں انڈیا کی کچھ سرکردہ آزاد خبر رساں ادارے شامل ہیں جن میں حقائق کی جانچ کرنے والی ویب سائٹ الٹ نیوز، لائیو لا، دا کین، دا پرنٹ، دا وائر اور دا کاروان جیسے ادارے شامل ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا