سوات میں دھماکہ: امن کمیٹی کے سابق سربراہ سمیت آٹھ افراد ہلاک

کبل پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او نے بتایا کہ دھماکے میں امن کمیٹی کے سابق سربراہ ادریس خان کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔

سوات کے مرکزی علاقے مینگورہ میں سات نومبر 2008 کو ایک خودکش حملے کے بعد پولیس اہلکار جائے وقوعہ پر موجود ہیں (اے ایف پی)

خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں منگل کو بم دھماکے کے نتیجے میں امن کمیٹی کے سابق سربراہ اور دو پولیس اہلکاروں سمیت آٹھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

ریسکیو 1122 کے مطابق منگل اور بدھ کی درمیانی شب پولیس حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ دھماکے کی جگہ پر مزید تین لاشیں ملیں جن کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔

مرنے والوں کی شناخت ثنا اللہ، مسلم خان اور میاں سید ابراہیم شاہ باچا کے نام سے ہوئی ہے۔

 

ایک بیان میں اس دھماکے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔

کبل پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او فیاض خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دھماکے میں امن کمیٹی کے سابق سربراہ ادریس خان کی گاڑی کو بظاہر ریمورٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنایا گیا، جس میں دو شہری بھی جان سے گئے۔

دھماکے کے فوری بعد وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) سے رپورٹ طلب کرلی۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے ایک اعلامیے میں کبل دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جان سے جانے والوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔

سوات میں گذشتہ مہینے سے شدت پسندوں کی واپسی کی خبریں گردش میں ہیں۔ تاہم صوبائی حکومت اس کی تردید کر رہی ہے۔

سوات کی تحصیل مٹہ میں کچھ نامعلوم افراد نے اگست میں ایک پولیس ڈی ایس پی اور سکیورٹی فورسز کے دو افسروں کو یرغمال بنایا تھا جنھیں بعد میں بازیاب کرا لیا گیا۔ اس واقعے کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر جاری کی گئی تھی۔ 

مٹہ واقعے کے بعد کبل اور خوازا خیلہ میں عوام نے بڑے مظاہرے کرتے ہوئے کہا تھا کہ سوات کے عوام کبھی بھی علاقے میں دوبارہ کسی قسم کی شدت پسندی کو قبول نہیں کریں گے۔

سوات میں امن کمیٹی کا قیام اس وقت عمل میں لایا گیا تھا جب 2007 سے 2009 کے درمیان طالبان نے علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔

خیبر پختونخوا میں بڑھتے ہوئے شدت پسندی کے واقعات پر سینیئر سیاست دان افراسیاب خٹک کے ایک ٹوئٹ میں تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کے پی کے مختلف حصوں میں طالبان کے بڑھتے ہوئے حملے ایک بغاوت میں تبدیل ہو رہے ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر بے شمار قیمتی جانیں لے رہے ہیں۔ ریاست اب تک انکار میں رہی ہے۔

ادھر انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے ایک نیوز ریلیز میں کہا کہ پاک فوج کے تین جوانوں نے منگل کو بین الاقوامی سرحد کے پار افغانستان کے اندر سے دہشت گردوں کے حملے کو ناکام بناتے ہوئے جان دے دی۔

یہ واقعہ سرحدی ضلع کرم کے جنرل علاقے خرلاچی میں پیش آیا۔

بیان کے مطابق پاک فوج کے دستوں نے بھرپور جواب دیا اور مصدقہ انٹیلی جنس اطلاعات کے مطابق دہشت گردوں کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔

ہلاک ہونے والوں میں نائیک محمد رحمان (32 سال، کرک کا رہائشی)، نائیک معاویز خان (34 سال، جمرود، خیبر) اور سپاہی عرفان اللہ (27 سال، ساکن درگئی، مالاکنڈ) شامل ہیں)۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ’پاکستان دہشت گردوں کی جانب سے پاکستان کے خلاف سرگرمیوں کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کی شدید مذمت کرتا ہے اور توقع کرتا ہے کہ افغان حکومت مستقبل میں ایسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دے گی۔‘

اس میں کہا گیا کہ ’پاکستانی فوج دہشت گردی کی لعنت کے خلاف پاکستان کی سرحدوں کے دفاع کے لیے پرعزم ہے اور ہمارے بہادر سپاہیوں کی ایسی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔‘

سوات ماضی میں شدت پسندی سے بہت متاثر ہوا تھا جس کے نتیجے میں 2009 میں فوجی آپریشن کر کے سوات سے شدت پسندی کا صفایا کیا گیا تھا جس کے دوران لاکھوں افراد بےگھر ہوئے تھے۔ 

مٹہ کے واقعے کے بعد کبل اور خوازا خیلہ میں عوام کی جانب سے بڑے مظاہرے بھی کیے گئے تھے جس میں منتظمین کا کہنا تھا کہ سوات کے عوام کبھی بھی سوات میں دوبارہ کسی قسم کی شدت پسندی کو قبول نہیں کریں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان