انڈیا میں دو بہنوں کے ریپ اور قتل کے بعد غم و غصہ

سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سنجیو سمن نے صحافیوں کو بتایا: ’دو نابالغ دلت بہنوں، جن کی لاشیں ایک درخت سے لٹکی ہوئی ملی ہیں، کے گینگ ریپ اور قتل میں چھ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

سٹوڈنٹ فیذریشن آف انڈیا اور آل انڈیا ڈیموکریٹک وومن ایسوسی ایشن کے کارکنان 4 اگست 2021 کو نئی دہلی میں خواتین کے ریپ اور ستل کے حلاف مظاہرہ کر رہے ہیں (تصویر: اے ایف پی فائل)

انڈیا کی شمالی ریاست اتر پردیش میں دو نابالغ دلت لڑکیوں کے ریپ اور قتل کے واقعے نے ملک بھر میں اس وقت غم و غصے کی لہر دوڑا دی جب بدھ کو لکھیم پور کھیری ضلع میں دو کم سن بہنوں کی لاشیں ایک درخت سے لٹکی ہوئی ملیں۔

ریاستی پولیس نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ اس کیس کے حوالے سے اب تک چھ ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے جن کے خلاف انڈیا میں بچوں کے تحفظ سے متعلق جنسی جرائم کے ایکٹ 2012 کے سیکشن کے تحت دفعات لگائی گئی ہیں۔

لکھیم پور کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سنجیو سمن نے صحافیوں کو بتایا: ’دو نابالغ دلت بہنوں، جن کی لاشیں ایک درخت سے لٹکی ہوئی ملی ہیں، کے گینگ ریپ اور قتل میں چھ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ متاثرہ بہنوں کے خاندان کی موجودگی میں پوسٹ مارٹم کیا جا رہا ہے۔‘

انڈیا میں نچلی ذات تصور کیے جانے والے دلت برادری کی آبادی 20 کروڑ ہے جن کو قدیم روایات کے مطابق اچھوت سمجھا جاتا ہے۔ ہندو ذات پات کی درجہ بندی کے سب سے نچلے درجے پر سمجھے جانے والی اس برادری کو اکثر امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے حالانکہ 1955 میں انہیں اچھوت قرار دینے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

یہ واقعہ اسی ریاست کے ایک اور ضلعے ہاتھرس میں ایک 19 سالہ دلت لڑکی کے ساتھ گینگ ریپ اور قتل کے دو سال بعد پیش آیا ہے جس سے وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قومی اور بین الاقوامی سطح پر شدید مذمت کی گئی تھی۔ یہ ہندو قوم پرست جماعت مرکز کے ساتھ اتر پردیش میں بھی برسراقتدار ہے۔

ریاست کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی زیر قیادت ریاستی انتظامیہ کو اس غیر انسانی واقعے، جس میں چار اعلیٰ ہندو ذات کے ملزمان ملوث تھے، سے نمٹنے میں ناکامی کے لیے تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

پولیس کی جانب سے متاثرہ لڑکی کی لاش کو جلدی سے جلانے، مظاہرین کے ساتھ ان کے سخت رویے اور مخالف سیاست دانوں کو متاثرہ خاندان سے ملنے سے روکنے کی کوششوں سے ملک بھر میں غم و غصہ لہر دوڑ گئی تھی۔

جمعرات کو لکھیم پور کھیری پولیس نے بتایا کہ دو لڑکیوں کو قتل کرنے سے پہلے ان کا گینگ ریپ کیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لکھیم پور کھیری کے ایس پی سنجے کمار نے انڈین ایکسپریس کو بتایا: تمام ملزمان اور لڑکیوں کا تعلق ایک ہی گاؤں سے ہے۔ چترم نامی شخص کا بیٹا چھوٹو ماضی میں ان لڑکیوں سے ملتا رہا تھا اور اسی نے ان لڑکیوں کو تین دیگر ملزمان سے ملوایا تھا۔ بعد میں جب لڑکیوں نے انہیں شادی کے لیے مجبور کرنا شروع کیا تو ملزمان نے ان کا گلا گھونٹ کر جان سے مارنے کے بعد انہیں درخت سے لٹکا دیا۔‘

پولیس نے بتایا کہ چھوٹو عرف گوتم کے علاوہ دیگر ملزمان کی شناخت جنید، سہیل، حفیظ الرحمن، کریم الدین اور عارف کے طور پر کی گئی ہے۔

ایس پی سنجے کمار نے بتایا: ’جنید کو جمعرات کی صبح ایک انکاؤنٹر کے بعد گرفتار کیا گیا تھا اور اس دوران ان کی ایک ٹانگ میں گولی بھی لگی۔‘

متاثرہ لڑکیوں کے اہل خانہ کے مطابق بدھ کی سہ پہر تین بجے کے قریب ملزمان دونوں لڑکیوں کو گھسیٹ کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔

متاثرہ بہنوں کی والدہ نے بتایا کہ وہ نہا رہی تھی جب انہوں نے چھوٹو کی آواز سنی جو ان کے علاقے میں اکثر آتا جاتا رہتا تھا۔ وہ ان کی بیٹیوں کو بلا رہا تھا اور کچھ ہی دیر میں تین لڑکے آئے اور اس کی بیٹیوں کو گھسیٹ کر لے جانے لگے۔

ان کے بقول: ’میں نے انہیں روکنے کی کوشش کی اور ان کے پیچھے بھاگی لیکن وہ مجھے مار پیٹ کر وہاں سے چلے گئے۔ میں نے چیخیں ماری اور گاؤں والوں سے مدد لینے کے لیے واپس بھاگی۔‘

لڑکیوں کے والد نے ملزم کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

لڑکیوں کی موت کی خبر پھیلتے ہی مقامی لوگوں نے احتجاج کیا اور گاؤں کی سڑک بلاک کردی۔

پولیس کے اعلیٰ حکام کی جانب سے قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کا وعدہ کرنے کے بعد سڑک کھول دی گئی۔

ریاستی حکومت نے بھی کارروائی کا وعدہ کیا ہے جب کہ اپوزیشن جماعتوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کی بی جے پی حکومت کو ریاست میں لاقانونیت کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

یو پی کے نائب وزیر اعلی کے پی موریہ نے خبر رساں ادارے اے این آئی کو بتایا: ’لکھیم پور واقعہ بدقسمت اور افسوسناک ہے۔ تمام مجرموں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔ میں اپوزیشن رہنماؤں اکھلیش یادو، پرینکا گاندھی یا مایاوتی سے توقع کروں گا کہ وہ اس پر سیاست کرنے کے بجائے متاثرہ خاندان کو تسلی دیں۔ اتر پردیش میں قانون کی حکمرانی برقرار ہے۔‘

کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے گجرات فسادات میں بلقیس ریپ اور قتل کیس میں 11 قصورواروں کی حالیہ معافی اور رہائی کا حوالہ دیتے کہا: ’لکھیم پور میں دو نابالغ دلت بہنوں کا دن دیہاڑے اغوا اور قتل ایک انتہائی پریشان کن واقعہ ہے۔ جو لوگ ریپ کرنے والوں کو رہا کرتے ہیں اور ان کی عزت افزائی کرتے ہیں ان سے خواتین کے تحفظ کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ہمیں اپنی بہنوں اور لڑکیوں کے لیے ملک میں ایک محفوظ ماحول بنانا ہے۔‘

2002 میں مغربی ریاست گجرات میں ملک کے بدترین فرقہ وارانہ فسادات میں سے ایک کے دوران مسلم خاتون بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کرنے اور ان کے بچے کو قتل میں ملوث 11 سزا یافتہ مجرموں کو 15 سال کی سزا کاٹنے کے بعد معافی مل گئی۔

اتر پردیش کی سابق وزیر اعلی مایاوتی نے ریاست کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت پر بدانتظامی کا الزام لگایا ہے۔

مایاوتی نے اپنی ٹویٹ میں لکھا: ’اس واقعے نے اتر پردیش میں امن و امان اور خواتین کی حفاظت کے معاملے میں حکومت کے دعوؤں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ہاتھرس سمیت ایسے گھناؤنے جرائم کے کیسز میں زیادہ تر مجرم اس برائی کی وجہ سے بے خوف ہو چکے ہیں۔‘

بدھ کا واقعہ اتر پردیش ہی کے ایک اور علاقے بداون میں دو کزن بہنوں کے قتل کے ایک واقعے کی یاد دلاتا ہے جب 2014 میں ان کی لاشیں ریپ کے بعد درخت سے لٹکی ہوئی پائی گئی تھیں۔

گذشتہ ہفتے ہی جاری ہونے والے مرکزی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق انڈیا میں خواتین کے خلاف جرائم میں گذشتہ سال کے مقابلے میں 15 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اتر پردیش میں خواتین کے خلاف جرائم کی سب سے زیادہ تعداد 56 ہزار 83 گذشتہ سال ہی ریکارڈ ہوئی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا