انڈیا: متنازع قانون کے خلاف احتجاج کرنے والی طالبہ کا داخلہ منسوخ

انڈیا کے متنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی تحریک سے شہرت پانے والی جامعہ ملیہ اسلامیہ کی صفورا زرگر کا داخلہ ایم فل میں ’غیر تسلی بخش پیش رفت‘ کی وجہ سے منسوخ کر دیا گیا۔

انڈیا کے متنازع شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاجی تحریک میں جیل جانے والی صفورا زرگر کے تعلیمی ادارے جامعہ ملیہ اسلامیہ نے ان کا ایم فل کا داخلہ ’غیر تسلی بخش پیش رفت‘ کی وجہ سے منسوخ کر دیا۔

صفورا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں اگست کے آخر میں ڈین (جامعہ کے انتظامی سربراہ) کے دفتر سے اے ای میل موصول ہوئی جس میں کچھ تحریر نہیں تھا بس ایک نوٹس جڑا تھا جس پر لکھا تھا کہ ان کا داخلہ 22 اگست سے منسوخ کر دیا گیا ہے۔

’کچھ وقت بعد ایک اور ای میل موصول ہوئی جس میں موجود نوٹس پر تحریر تھا کہ میرا داخلہ چھ فروری، 2022 سے منسوخ تصور ہو گا۔‘

صفورا کا کہنا ہے کہ اس سے جامعہ کی بدنیتی ظاہر ہوتی ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو جاری ایک بیان میں کہا کہ یونیورسٹی گرانٹ کمیشن (یو جی سی) کی ہدایات اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے آرڈینینس کی روشنی میں ایم فل کا تحقیقی مقالہ تیسرے سیمسٹر کے مکمل ہونے پر جمع کروانا ہوتا ہے۔

’اس کے بعد صرف دو سیمسٹرز کا اضافہ کیا جا سکتا ہے، یعنی ٰچوتھے اور پانچویں کا۔ صفورا زرگر کو یہ دونوں اضافی سیمسٹرز کا فائدہ دیا گیا۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ دو اضافی سیمسٹرز کے علاوہ صفورا زرگر کو کرونا وبا کی مد میں چھٹے سیمسٹر کی سہولت بھی دی گئی جو یو جی سی کے نوٹیفکیشن کے مطابق تھی۔

’تاہم انہوں نے کرونا وبا کی مد میں ملنے والے چھٹے سیمسٹر کے اختتام پر بھی اپنا تحقیقی مقالہ جمع نہیں کروایا جس کی میعاد چھ فروری، 2022 کو ختم ہو گئی تھی۔

’یو جی سی کے نوٹیفکیشن کے اعتبار سے کرونا وبا کی مد میں ملنے والے اضافی سیمسٹر کے بعد مزید کسی سہولت کی گنجائش نہیں۔‘

صفورا نے بتایا کہ ان کا صرف داخلہ ہی منسوخ نہیں ہوا بلکہ انہیں اپنی یونیورسٹی میں داخلے سے بھی روکا گیا جو ان کا حق تھا۔

انہوں نے بتایا کہ نوٹس ملنے کے اگلے روز انہیں یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہوئے گارڈ نے روک لیا کہ آپ کا داخلہ منسوخ ہو چکا ہے۔

’یونیورسٹی انتظامیہ یہ مان کر بیٹھ چکی ہے کہ میں کوئی اپیل نہیں کر سکتی۔ مجھے کیمپس میں داخلے سے روکا گیا۔ یعنی بنیادی مقصد یہی ہے کہ صفورا کیمپس میں نہ داخل ہو۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میرے کیمپس میں موجود ہونے سے یونیورسٹی اتنا خوف زدہ کیوں ہے؟ اس بات کو میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔‘

ﻧئی دﮨﻠﯽ ﻣﯾں ﻣﻘﯾم اﯾﮏ وﮐﯾل ﮐواﻟﭘرﯾت ﮐور ﻧﮯ ﺑﺗﺎﯾﺎ ﮐہ ’ﺻﻔورا کو اﭘﻧﺎ ﻣﻘﺎﻟہ ﺟﻣﻊ ﮐرواﻧﮯ ﮐﮯ ﻟیے ﺗوﺳﯾﻊ ﺣﺎﺻل ﮐرﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﮩت ﺳﮯ طرﯾﻘﮯ ﮨﯾں۔

’ﯾوﻧﯾورﺳﭨﯽ ﮔراﻧﭨس ﮐﻣﯾﺷن ﻧﮯ ﺳﮑﺎﻟرز ﮐو ﻓﺎﺋده دﯾﺎ ﮨﮯ اور ﮐووﯾڈ 19 ﮐﮯ دوران ﭼﺎر اﯾﮑﺳﭨﯾﻧﺷن دﯾﮯ ﮨﯾں ﻟﯾﮑن ﺻﻔورا ﮐﮯ ﻣﻌﺎﻣﻠﮯ ﻣﯾں ﯾہ ﻻﮔو ﻧﮩﯾں۔‘

’ﯾہ واﺿﺢ ﮨﮯ ﮐہ اس ﮐﯽ ﺗوﺳﯾﻊ دﯾﻧﮯ اور اس ﮐﮯ ﺑﻌد انہیں اﯾم ﻓل ﮐﺎ ﻣﻘﺎﻟہ ﺟﻣﻊ ﮐرﻧﮯ ﮐﯽ اﺟﺎزت دﯾﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯾﮯ ﺗﻣﺎم اﻧﺳﺎﻧﯽ اور ﻗﺎﻧوﻧﯽ ﺑﻧﯾﺎدوں ﮐﮯ دﺳﺗﯾﺎب ﮨوﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎوﺟود، ﻣﺣﮑﻣہ ﻣن ﻣﺎﻧﯽ اور اﻧﺗﻘﺎﻣﯽ ﮐﺎررواﺋﯽ ﮐر رﮨﺎ ﮨﮯ۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ صفورا کو واﺿﺢ طور ﭘر ان ﮐﯽ ﺳﯾﺎﺳﯽ راﺋﮯ اور ﯾوﻧﯾورﺳﭨﯽ ﮐﮯ اﻧدر اور ﺑﺎﮨر ان ﮐﮯ اﺧﺗﻼف ﮐﯽ وﺟہ ﺳﮯ ﻧﺷﺎﻧہ ﺑﻧﺎﯾﺎ ﺟﺎ رﮨﺎ ﮨﮯ۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صفورا نے 2020 کے اوائل میں انڈیا کے متنازع شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف طلبہ کے احتجاج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔

انہیں 10 اپریل، 2020 کو جب گرفتار کیا گیا تو وہ حاملہ تھیں۔ ان کی گرفتاری کے بعد انڈیا اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے صورت حال پر تفتیش کا اظہار کیا تھا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انڈیا کی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ حاملہ صفورا کو رہا کرے۔

پولیس نے ان پر دہلی میں فسادات کا حصہ بننے اور 23 فروری، 2020 کو ایک اشتعال انگیز تقریر کرنے کا الزام لگا کر غیر قانونی حرکات کی روک تھام کے قانون (یو اے پی اے) کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔

ان کو 23 جون، 2020 کو دہلی ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہائی دی تھی۔

ضمانت کی اپیل ان کے ایک ساتھی طالب علم نے دائر کی تھی، جس میں موقف اختیار کیا تھا کہ حاملہ صفورا کو صحت کے مسائل درپیش ہیں۔

حکومت نے اس سے پہلے ان کی ضمانت کی ہر اپیل کی مخالفت کی تھی لیکن اس اپیل کو انسانی بنیادوں پر چیلنج نہیں کیا گیا اور یوں انہیں 10 ہزار انڈین روپے کے ضمانتی مچلکوں پر رہا کر دیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا