پاکستان اور سیاحت کا عالمی دن

پاکستان کا شمار سیاحتی وسائل سے مالامال ملکوں میں ہوتا ہے، اگر سیاحت کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے تو یہ ملک کی سب سے بڑی منافع بخش انڈسٹری بن سکتی ہے۔

یوم سیاحت کا پاکستان سے ایک ایسا خاص تعلق ہے جو دنیا بھر کے ممالک میں کم ہی ملکوں کے حصے میں آیا ہے۔ پاکستان دنیا بھر کے فطرت پسند لوگوں کو مقناطیس کی طرح کھینچتا ہے (Muhammad Akram Attari - CC BY-SA 4.0)

دنیا بھر میں 27 ستمبر کو یوم سیاحت منایا جاتا ہے، سیاحت کا یہ عالمی دن ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن کی ایگزیکٹیو کونسل کی سفارشات پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کے مطابق 1970 سے منایا جا رہا ہے۔

یوم سیاحت کا پاکستان سے ایک ایسا خاص تعلق ہے جو دنیا بھر کے ممالک میں کم ہی ملکوں کے حصے میں آیا ہے۔ پاکستان دنیا بھر کے فطرت پسند لوگوں کو مقناطیس کی طرح کھینچتا ہے۔ گلگت بلتستان میں ایک ہی وقت شدید گرمی اور درجہ حرارت 45 جبکہ عین اسی لمحے منفی 40 کا عمل اس خطے کو دنیا بھر سے ممتاز کرتا ہے۔ یہی کشش پاکستان کو سیاحتی نقشے پر خوبصورت پہچان عطا کرتی ہے اور اپریل سے ستمبر تک نانگا پربت، راکا پوشی، کے ٹو اور دیوسائی پر امریکہ اور یورپ سمیت دنیا بھر کے سیاح خیمہ زن ہوتے ہیں۔

شاہراہِ قراقرم پر سفر کے دوران میں نے دیکھا کہ دریائے سندھ کے کنارے رائے کوٹ پل پر تو گرمی جان نکالنے پر تلی ہوئی ہوتی ہے جبکہ عین اوپر نانگا پربت بیس کیمپ پر سیاح آگ کے الاؤ سے اپنے خون کی روانی جاری رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ صرف پاکستان پر قدرت کی عطا ہے کہ سیاحت کے فروغ کے لیے حکومتی سطح پر کچھ کیے بغیر ہی بلندیوں، برفیلی وادیوں، جھیلوں، منجمد ندیوں اور چشموں کے گرد بسنے والے لوگ سال بھر کی روزی سیاحت سے ہی کشید کرتے ہیں۔ ہوٹل انڈسٹری بھی سیاحت کی بیساکھی پر کھڑی مسکراتی ہے۔

سیاحت کی دنیا میں پاکستان کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ دنیا بھر میں 26 ہزار فٹ بلند 14 برفانی چوٹیاں اپنے اپنے خطے کو منفرد اعزاز عطا کرتی ہیں۔ آٹھ ہزار میٹر سے زائد بلند ان چوٹیوں میں سے پانچ صرف پاکستان کے حصے میں آئی ہیں، عجیب بات تو یہ ہے کہ ان پانچ میں سے چار بلندیاں کنکورڈیا اور کے ٹو سے قریب ترین ہیں۔

پاکستان کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ سات ہزار میٹر بلند 186 چوٹیاں گلگت بلتستان کے پہاڑوں میں ترتیب سے پروئی گئی ہیں۔ دنیا کی دوسری اونچائی 8611 میٹر بلند چوٹی کے ٹو کے علاوہ نانگا پربت (8125 میٹر)، گاشربرم ون (8068 میٹر)، بروڈ پیک (8051 میٹر) اور گاشر برم ٹو (8035 میٹر) وطن عزیز کو پہاڑوں کی دنیا میں ممتاز کرتی ہیں۔ ضلع نگر کی حدود میں واقع 7788 میٹر بلند راکا پوشی کوہ پیماؤں کو ہنزہ کی طرف کھینچتی ہے۔ 7708 میٹر بلند برفیلی بلندی ترچ میر ضلع چترال کو سفید چاندی جیسا عکس عطا کرتی ہے۔

قراقرم کے حصے میں سب سے زیادہ بلندیاں آتی ہیں۔ قاتل پہاڑ نانگا پربت ہمالیہ میں رنگ بھرتا ہے۔ کوہ ہندو کش کا سلسلہ بھی ترچ میر کے بغیر ادھورا ہے۔ عالمی کوہ پیماؤں کے لیے ہمیشہ سے جان لیوا چوٹی نانگا پربت شاہراہِ قراقرم پر سفر کرنے والوں کو بہت دلکش نظارے تقسیم کرتی ہے۔ رائے کوٹ کی طرف سے نانگا پربت کے بیال کیمپ کی طرف جانے والے سیاح فیری میڈو سے ہو کر وہاں پہنچتے ہیں۔ پریوں کی چراگاہ میں ریفلیکشن جھیل کے پانی نانگا پربت کا عکس لیے ہوتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ دنیا بھر کی واحد مثال ہے کہ آٹھ میٹر بلندی کی حامل چار چوٹیاں کندھے سے کندھا ملائے کنکورڈیا کے راستے میں پڑتی ہیں۔ کے ٹو کی طرف منہ کر کے کھڑے ہوں تو ایک تکون جس میں ذرا سا دھبہ بھی نظر نہیں آتا وہ اینجل پیک ہے، دائیں جانب براڈ پیک اور اس کے ساتھ گیشا بروم گروپ کی چوٹیاں ہیں۔ ان راستوں پر زیادہ تر امریکہ، جرمن، جاپان اور انگلینڈ کے کوہ پیما اور سیاح جاتے ہیں۔ پاکستانیوں کا اس طرف رجحان بہت کم ہے۔

جگلوٹ پر دنیا کے تین بلند ترین پہاڑی سلسلے قراقرم، ہندوکش اور ہمالیہ اپنی جداگانہ رنگت سمیت دریائے سندھ کے کنارے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ دیوسائی کی سطح مرتفع سیاحوں کو نئی زندگی کا مفہوم عطا کرتی ہے۔ جھیل کرومبر آج بھی فطری کشش سمیت دشوار راستوں کو آباد کیے ہوئے ہے کہ لوگ پیدل چل کر جب وہاں پہنچتے ہیں تو پاؤں کے آبلے بھول جاتے ہیں۔

پاکستان سیاحت کے حوالے سے سونے کی چڑیا ہے مگر افسوس کہ حکومتی سطح پر ان دل کش وادیوں کی نوک پلک سنواری ہی نہیں گئی۔ آسان رسائی ہوتی تو لوگ سوئٹزرلینڈ کو بھول جاتے۔

یہاں پر آنے والے 11 کوہ پیما نانگا پربت کے بیس کیمپ پر سوئے ہوئے تھے کہ قتل کر دیے گئے۔ ہماری پالیسیوں نے سیاحت کو مشکل بنا دیا۔ مری میں برف کی نذر ہونے والے 24 سیاحوں کی قبریں آج بھی سیاحت کے ذکر پر ہماری انتظامی کارکردگی کا مذاق اڑاتی ہیں کہ پاکستان کے مصروف ترین پہاڑی مقام پر سیاح برف میں پھنسے رہے اور کوئی ان کی مدد کو نہیں آیا۔

وطن عزیز کی ماں دھرتی کو نیلام کرنے والوں نے بیٹی جیسی معصوم جھیلوں کو بھی نہیں بخشا۔ جھیل سیف الملوک کبھی جھیل تھی جسے چھوا نہیں جا سکتا تھا، اب گندگی آلودگی میں لتھڑ کر عبرت کی مثال بن گئی ہے۔ شیوسر، رتی گلی، راما، نلتر اور کرومبر کے بعد جھیل سیف الملوک جھیل نہیں لگتی ایک مچھلی بازار لگتی ہے۔ ہم سنو لیک اور خلطی جھیل کی سی پاکیزگی بھری خاموشی کے عادی ڈیزل کے دھویں میں دب کر رہ گئے۔

سیاحت کو اگر لالچ اور ہوس سے بچا لیا جائے تو ملک کی سب سے بڑی منافع بخش انڈسٹری سیاحت ہی ہو۔ جو وسائل اور حسن قدرت نے ہمیں عطا کیا ہم نے اسے تباہ و برباد کر دیا۔

آئیے یوم سیاحت پر ہم عہد کریں کہ وطن عزیز کے قدرتی حسن کو بچانا اور سیاحوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات